پاکستان میں پانچ کروڑ لوگ مختلف ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہیں ساٹھ لاکھ افراد نشے کی لت میں مبتلا ہیں۔ ایک فیصد نوزائیدہ اور شیر خوار بچوں میں ذہنی امراض کی نشاندہی ہوئی ہے۔ 54فیصد مائیں اپنے بچوں کی ذہنی صحت کے حوالے سے پریشان ہیں۔ ملک میں سالانہ انیس ہزار تین سو افراد خود کشی کی کوشش کرتے ہیں اورستر فیصد اپنی کوشش میں کامیاب ہوتے ہیں۔ صرف دس فیصد مریضوں کو علاج کی سہولت میسر ہے یا انہیں ذہنی صحت کا علاج کرنے کی فکر ہوتی ہے۔ یہ انکشافات ہورائزن کے زیر اہتمام ذہنی صحت کے عالمی دن کے حوالے سے منعقدہ سیمینار میں طبی ماہرین نے کیا۔ نامور ماہر ذہنی امراض پروفیسر ڈاکٹر خالد مفتی‘ شفا انٹرنیشنل ہسپتال کے ماہر ذہنی امراض پروفیسر ڈاکٹر عبدالوہاب یوسف زئی، فاٹا یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر جہانزیب خان، ڈاکٹر علی مفتی اور پروفیسر ناصر علی سید نے سیمینار سے خطاب کیا۔طبی ماہرین کا کہنا تھا کہ غربت، مہنگائی، بے روزگاری، گھریلو تنازعات، میاں بیوی میں چپقلش، امتحان میں ناکامی اور گھریلو تشددخود کشی کی اہم وجوہات ہیں۔اس کے ساتھ وبائی امراض، دہشت گردی، زلزلے، سیلاب یا امن و امان کا مسئلہ درپیش ہونے کی وجہ سے بے گھر ہونا، معاشی و
معاشرتی عدم مساوات اور سیاسی عدم استحکام بھی ذہنی بیماریوں کی بڑی وجوہات میں شامل ہیں۔المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں ذہنی بیماریوں کو مرض کے زمرے میں شمار نہیں کیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ ذہنی پریشانیوں، ڈپریشن اور بے خوابی کا علاج کروانا لوگ ضروری سمجھتے ہیں نہ ہی حکومتیں اس حوالے سے سنجیدہ اقدامات کررہی ہیں جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ذہنی امراض کے علاج کے لئے بجٹ میں جی ڈی پی کا صرف ایک فیصد مختص کیاجاتا ہے۔ ذہنی بیماریوں کو مرگی کا دورہ قرار دے کر نظر انداز کیا جاتا ہے۔حالیہ تحقیق کے مطابق دنیا میں ہر چالیس منٹ بعد ایک شخص خود کشی کرتا ہے۔ دنیا کے دیگر ملکوں میں اس کا پورا ریکارڈ رکھا جاتا ہے پاکستان میں خود کشی کے تیس سے چالیس فیصد کیسز رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔عالمی ادارہ صحت کے پاس پاکستان میں خود کشی کرنے والوں کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں قتل کے بعض واقعات کو بھی خود کشی قرار دے کر معاملہ نمٹا دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں گذشتہ چند سالوں کے اندر خود کشی کے سب سے زیادہ واقعات خیبر پختونخوا میں اور صوبے میں زیادہ واقعات ملاکنڈ ڈویژن میں رونما ہوئے جن میں ضلع چترال سرفہرست ہے۔ ملاکنڈ میں نو سال قبل کے اعدادوشمار کے مطابق خود کشی کے ایک سو بیس واقعات ہوئے تھے۔ دو ہزار بیس میں یہ تعداد بڑھ کر ساڑھے چار سو تک پہنچ گئی۔پولیس ریکارڈ کے مطابق گذشتہ سال صوبے میں اقدام خود کشی کے ایک ہزار چھ سو پنتالیس کیسز رپورٹ ہوئے۔ خود کشی کرنے والوں میں 63فیصد تعداد خواتین کی تھی۔اور ان میں سے 60فیصد شادی شدہ تھیں۔ خود کشی کرنے والوں میں سترافراد کی عمر پندرہ سے بیس سال، پچھتر افراد کی عمر اکیس سے تیس سال کے درمیان تھی۔اکتیس سے چالیس سال کے پنتیس، پچاس سال تک کے اٹھارہ اور ساٹھ سال سے زائد عمر کے دس افراد نے اپنی زندگی کا چراغ اپنے ہی ہاتھوں گل
کردیا۔ گلگت بلتستان میں ایک سال کے اندر 466افراد نے خود کشی کی۔ ان میں سے 179خواتین تھیں۔151افراد غیر شادی شدہ تھے۔اور136افراد کی عمر بیس سال سے کم تھی۔ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق خود کشی کرنے والوں میں سے 35فیصد ذہنی بیماریوں،33فیصد گھریلو تنازعات، نو فیصد گھریلو تشدد،تین فیصد غربت اور تنگ دستی اور انیس فیصد نے دیگر وجوہات کی بنا پر خود کشی کرلی۔یہ صورتحال انتہائی تشویش ناک ہے۔ حکومت، غیر سرکاری تنظیموں، فلاحی اداروں، اکیڈیمیا اور علمائے کرام کو اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ذہنی بیماریوں کے علاج کے لئے ضلعی ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں میں ذہنی امراض کے ماہرین کی تعیناتی ناگزیر ہے۔ اور سب سے زیادہ ضرورت ذہنی بیماریوں کے حوالے سے عوامی شعور بیدار کرنا ہے۔لوگوں کو یہ باور کرانا ہوگا کہ ذہنی بیماری بھی تپ دق، سرطان، گردوں اور جگر کے امراض، نمونیا، ملیریا اور دیگر بیماریوں کی طرح بیماری ہے دیگر امراض میں مبتلا افراد کو صرف اپنی جان کی پڑی ہوتی ہے جبکہ ذہنی امراض میں مبتلاافراد نہ صرف اپنی جان بلکہ دوسروں کی زندگی کے لئے بھی خطرہ بن سکتے ہیں اس لئے ان کے مرض کی فوری تشخیص اور علاج ناگزیر ہے۔