پہلی بات: شعبہئ صحت سے متعلق تحقیقی نظام جسے عرف عام میں ’ہیلتھ ریسرچ سسٹم (ایچ آر ایس)‘ کہا جاتا ہے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اِس نظام کے تحت صحت کے بنیادی نظام سے لیکر اِس کی حال و مستقبل کی ضروریات کا تعین بھی کیا جاتا ہے جبکہ اِسی نظام کی بدولت مالی و افرادی وسائل کی بچت بھی ممکن ہوتی ہے جو پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لئے انتہائی اہم بات ہے۔ تکنیکی بات یہ ہے کہ ’ایچ آر ایس‘ کے پرفارمرز حاصل ہونے تاثرات (فیڈبیک) سسٹم کے تجزیہ کا ضروری حصہ ہوتا ہے‘ جو کہ نظام کی خوبیوں اور خامیوں کو پہچاننے میں مدد دیتا ہے اور اِسی کی مدد سے بہتری بھی آتی ہے۔ ’ایچ آر ایس‘ میں پالیسی ساز اور ماہرین تعلیم شامل ہوتے ہیں۔ پاکستان میں ’ایچ آر ایس‘ ابتدائی شکل و صورت میں دکھائی دیتا ہے جو ملک کو درپیش صحت عامہ سے متعلق بہت سے چیلنجوں سے نمٹنے میں مدد تو دے رہا ہے لیکن یہ خاطرخواہ انداز میں پھل پھول نہیں رہا۔دوسری بات: رواں ہفتے خیبرپختونخوا کے محکمہئ صحت نے سال دوہزاربیس کے دوران مختلف اضلاع میں ملازمتی معاہدوں (کنٹریکٹ) کی بنیاد پر بھرتی ہونے ”غیرمستقل“ ڈاکٹروں (میڈیکل آفیسرز ایم اوز) کو مستقل کردیا ہے۔ یہ ڈاکٹر ہنگامی بنیادوں پر وبا سے نمٹنے کے لئے بھرتی کئے گئے تھے اور اب اِن کی خدمات باقاعدہ بنا دی گئی ہیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ڈاکٹروں کو اُن کی تقرری کے دن سے مستقل کیا گیا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ ماہ اگست کے دوران‘ صوبائی اسمبلی نے خیبرپختونخوا کے ”میڈیکل آفیسرز آف ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ ریگولرائزیشن آف سروسز ایکٹ 2022ء“ کی منظوری دی تھی اور اِس قانون سازی کا ایک ہدف و مقصد یہ تھا کہ دور دراز علاقوں میں ڈاکٹروں کی موجودگی یقینی بنائی جائے۔ غیرمستقل ڈاکٹروں کو وبا کے دوران دور دراز علاقوں میں تعینات کیا گیا اور یہ ڈاکٹر ہنسی خوشی اِس اُمید پر دور دراز علاقوں میں چلے گئے کہ ملازمت مستقل ہو جائے گی اور ایسا ہی ہوا۔تیسری بات: خیبرپختونخوا میں صحت کے ماہرین صحت نے میڈیکل کالجوں پر زور دیا ہے کہ وہ صحت عامہ کے مسائل‘ وبائی امراض اور مختلف بیماریوں میں اضافے سے متعلق موضوعات پر تحقیق کو فروغ دیں اور مریضوں کے بہتر علاج کے لئے سفارشات مرتب کریں۔ خیبر میڈیکل کالج میں منعقدہ ”پہلی قومی تحقیقی کانفرنس“ میں ڈاکٹروں کی جانب سے صحت ِعامہ کے مسئلے پر مطالعات پیش کئے گئے اور میڈیکل سائنسز کے شعبوں میں تحقیق کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی۔ ذہن نشین رہے کہ طب کی تعلیم میں صرف علاج معالجہ ہی نہیں بلکہ بیماریوں سے متعلق تحقیق و عوامی شعور اُجاگر کرنے بھی شامل ہوتا ہے۔ مذکورہ ”پہلی قومی تحقیقی کانفرنس“ میں خیبر کالج آف ڈینٹسٹری کے ڈاکٹر عمر علی کی تحقیقی مقالہ پیش کیا جس میں کہا گیا کہ ”والدین اپنے بچوں کے دانتوں کی دیکھ بھال پر مناسب توجہ نہیں دیتے جبکہ اُنہیں اپنے دانتوں کی بھی بہتر دیکھ بھال یقینی بنانے کے لئے معمولات وضع کرنے چاہیئں اور اِس سلسلے میں والدین کو قائل کرنے کے لئے انفرادی و اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔ اِس مطالعہ میں ’خیبر کالج آف ڈینٹسٹری‘ کے شعبہئ اطفال کے دندان سازی میں مریضوں کے علاج کے دوران والدین کے روئیوں پر توجہ مرکوز رکھی گئی۔ خیبرپختونخوا میں مستند معالجین سے دانتوں کے امراض کا علاج معالجہ اور اِس کی اہمیت کے بارے میں خاطرخواہ شعور نہیں پایا جاتا۔ یہ امر بھی لائق توجہ ہے کہ مختلف امراض میں لوگ ازخود ادویات خرید کر استعمال کرتے ہیں جن کی وجہ سے امراض و صحت کے حوالے سے پیچیدگیاں پیدا ہو رہی ہیں اور امراض اِس شدت سے ظاہر ہو رہے ہیں کہ اِن پر اب عمومی ادویات اثر نہیں رکھتیں۔ دانتوں کے ڈاکٹروں کو سوچنا چاہئے کہ ہسپتال میں بچوں کے ساتھ آنے والے والدین کے رویئے کا بھی جائزہ لیں اور علاج کی منصوبہ بندی کو سمجھیں اور اِس میں تعاون کریں لیکن یہ اہداف ازخود یا واجبی کوششوں سے حاصل نہیں ہوں گے جب تک کہ والدین کو اِس حوالے سے نظم و ضبط کی تعلیم نہ دی جائے۔ دانتوں کی دیکھ بھال کا تعلق شخصیت کے ظاہری و باطنی حسن سے بھی ہوتا ہے اور ایک صحت مند انسان ہی زندگی کے مراحل خوش اسلوبی سے طے کر سکتا ہے۔ مذکورہ تحقیق میں بچوں کے دانتوں سے جڑے مسائل سے متعلق والدین کے رویئے اور ردعمل کے بچوں کی شخصیت پر اثرات کو بھی دیکھا گیا۔ دلچسپ نتیجہ یہ سامنے آیا جس کا ذکر مذکورہ تحقیق (مطالعہ) میں پیش کیا گیا کہ بچوں کے علاج بارے والدین کے رویئے بنیادی طور پر چار قسم کے ہوتے ہیں جن میں بااختیار رویہ‘ آمرانہ رویہ‘ اجازت دینے والا رویہ اور نظرانداز کرنے والا رویہ شامل ہوتے ہیں۔ ڈاکٹروں کی ذمہ داری بتائی گئی ہے کہ وہ مرض کی تشخیص و علاج تجویز کرنے کے ساتھ والدین کے روئیوں کی درست شناخت اور اُس کی اصلاح سے متعلق اپنی ذمہ داری سے بھی آگاہ ہوں۔”پہلی قومی تحقیقی کانفرنس“ میں پیش کردہ تحقیق میں ’اینٹی بائیوٹک‘ ادویات کے ازخود انتخاب و استعمال سے متعلق قومی روئیوں اور اِن کے اثرات کا ذکر بھی کیا گیا ہے کہ ڈاکٹری نسخے کے بغیر ادویات کی فروخت صحت عامہ کے نظام میں پیچیدگیاں پیدا ہو رہی ہیں جو حقیقت میں ’بہت بڑا مسئلہ‘ ہے لیکن اِس کے حوالے سے بہت کم بات کی جا رہی ہے۔ ڈاکٹری نسخے کے بغیر درد کش ادویات کا سہارا لینا بھی خطرناک ہوتا ہے اور ایسی نشہ آور ادویات صرف اور صرف مجاز نسخوں اور مجاز ادویہ فروشوں کے ذریعے فروخت کرنے سے اِس مسئلے کو بڑی حد تک حل کیا جا سکتا ہے۔ تحقیق میں ڈاکٹروں نے ہسپتال میں زیرعلاج رہتے ہوئے طویل قیام اور متعدد ادویات استعمال کرنے والے مریضوں کے ردعمل کا بھی مطالعہ کیا ہے۔