انسداد منشیات کے لئے جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے جو جملہ ضروریات کا احاطہ کرے‘ جس میں منشیات سازی‘ منشیات کی درآمد برآمد‘ اِس کی خریدوفروخت اور استعمال کے لئے الگ الگ ’ٹاسک فورس‘ ایک مربوط لائحہ عمل کے تحت کام کریں تو اِس کوشش و مقصد اور ہدفکا حصول عملاً ممکن بنایا جا سکتا ہے بصورت دیگر ہر چند برس بعد کی جانے والی ایسی کوششیں تشنہ کام رہیں گی۔ رواں ہفتے خیبرپختونخوا حکومت کے اہم اقدامات اور فیصلہ میں شامل ہے کہ اگلے دو برس کے دوران پچاس کروڑ (پانچ سو ملین) روپے کی لاگت سے قریب پانچ ہزار منشیات کے عادی افراد کا علاج کیا جائے گا جس کے لئے صوبے کی تاریخ کے غالباً سب سے بڑے ”بحالی پروگرام“ کو صوبائی دارالحکومت کے بعد دیگر اضلاع تک بڑھانے کی منظوری دے دی گئی ہے۔لائق توجہ اَمر یہ ہے کہ منشیات کے عادی اَفراد کا علاج صرف اُسی صورت مؤثر (کامیاب) ثابت ہو سکتا ہے جبکہ نشہ آور مادوں تک رسائی ناممکن حد دشوار بنا دی جائے۔ اگر ایک طرف منشیات کے عادی افراد کا علاج اور بحالی ہو رہی ہو اور دوسری طرف نوجوانوں کی ایک غیرمعمولی تعداد کے نام منشیات کے نئے عادی افراد کی فہرست میں درج ہو رہے ہوں تو اِس کوشش کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوں گے کیونکہ خرابی کی بنیاد (جڑ) کا علاج نہیں کیا جا رہا۔ دوسری اہم بات منشیات کے عادی افراد کے علاج کو صوبے کے تمام اضلاع تک وسعت دینے کے ساتھ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی متحرک کیا جائے اور اِس سلسلے میں جب تک صوبائی حکومت سزأ و جزأ کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کاروائی نہیں کرے گی۔
اُس وقت تک بھی مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوں گے۔انسداد منشیات اور منشیات کے عادی افراد کی بحالی کا بوجھ اُٹھانا کمزور انتظامی ڈھانچے کے بس کی بات نہیں اور یہی وجہ ہے کہ اِس ’بوجھل ذمہ داری‘ سے احسن انداز میں عہدہ برأ ہونے کی ہر کوشش حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ختم نہ ہو! وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی جانب سے اعلیٰ سطحی اجلاس میں حکام کو سختی سے ہدایت کی گئی ہے کہ وہ صحت یاب ہونے والوں کو مفید اور ذمہ دار شہری بنانے پر بھی توجہ دیں اور اگلے دو ہفتوں (اکتوبر کے اختتام تک) خیبرپختونخوا کے سات ڈویژنوں میں بیک وقت پروگرام ’منشیات کے عادی افراد کی بحالی‘ کا کام شروع کریں‘ یہ عملی اقدامات وقت کی ضرورت ہیں۔ مذکورہ اجلاس میں وزیراعلیٰ کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر سیف‘ وزیراعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری امجد خان‘ کمشنر پشاور ریاض محسود اور متعلقہ محکموں کے انتظامی سیکرٹریز و دیگر حکام شریک تھے۔ نشست میں نے اب تک کی کارکردگی (کارگزاری) کا بھی جائزہ لیا گیا‘ جسے تسلی بخش قرار دیتے ہوئے صوبائی دارالحکومت میں پہلے سے اپنائے گئے ماڈل کو مقامی ضروریات کے مطابق اضلاع تک وسعت دینے پر اتفاق کیا گیا۔ ذہن نشین رہے کہ اِس منصوبے کا مقصد صوبے میں منشیات کے عادی افراد کی بڑے پیمانے پر بحالی ہے اور اِسے صوبائی سالانہ ترقیاتی پروگرام (اینول ڈویلپمنٹ پروگرام) کا حصہ بناتے ہوئے خطیر رقم (پچاس کروڑ روپے) مختص کئے گئے ہیں جبکہ منصوبے کے لئے 2 سال کی مدت مقرر کی گئی ہے۔ مذکورہ منصوبہ تین مراحل میں مکمل کیا جائے گا جس کا پہلا مرحلہ اعدادوشمار (ڈیٹا) اکٹھا کرنا اور پروفائلنگ ہے۔ دوسرا مرحلہ علاج معالجہ اور تیسرا مرحلہ صحت یاب ہونے والوں کو ذمہ دار شہری کے طور پر مصروف کرنا ہے۔
منشیات کے عادی افراد کو ماہر نفسیات‘ مستند ڈاکٹروں اور دیگر متعلقہ عملے کی براہ راست نگرانی میں علاج و بحالی کے ساتھ ساتھ اُن کی جملہ ضروریات (خوراک‘ کپڑے‘ حفظان صحت کی کٹس اور تفریحی و کھیلوں کی سرگرمیوں میں مشغول کرنے جیسے مواقعوں) کی فراہمی بھی منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔ علاوہ ازیں صوبائی فیصلہ ساز دعویٰ کرتے ہیں کہ اُنہوں نے مکمل سماجی و اِقتصادی ماڈل وضع کیا ہے‘ جس میں ہنرمندی اور پیشہ ورانہ تربیت شامل ہے جن کا مقصد نشے کے عادی رہے بحال شدہ مریضوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرنا ہے۔ صحت یاب ہونے والے افراد کو ضروری دستاویزات اور سکھائے گئے ہنر سے متعلق معاون آلات (ٹول کٹس) بھی فراہم کی جائیں گی۔ اسی طرح کے پروگرام پر حقیقی معنوں میں عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لئے صوبائی‘ ڈویژنل اور ضلعی سطح پر سٹیئرنگ کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی جب کہ کسی بھی مسئلے کو فوری حل کرنے کے لئے دو ماہی پیشرفت کا جائزہ لیا جائے گا۔ مذکورہ مہم کے تحت‘ اب تک 1079نشے کے عادی افراد کی مکمل بحالی کی جا چکی ہے جبکہ 925 نشے کے مریض مختلف زیر علاج ہیں۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے منشیات فروشوں کے خلاف بھی سخت کاروائی کا حکم دیا ہے لیکن اِس کثیرالجہتی اور سنگین مسئلے کا موافق پائیدار حل نکالنے کیلئے خیبرپختونخوا ویگرنسی ایکٹ (KP vagrancy restraint act 2020)“ نامی قانون کے تحت قواعد وضع کرنے کی بھی ضرورت ہے جس کی باضابطہ منظوری ’صوبائی کابینہ‘ کو دینا ہے اور یہ عمل غیرضروری تاخیر کا شکار دکھائی دے رہا ہے۔