پاکستان سمیت پوری دنیا کو پہلے کورونا نے اور بعد ازاں یوکرین جنگ نے معاشی مشکلات سے دوچار کئے رکھا ہے اور اس وقت بھی عالمی سطح پر معاشی کساد بازاری کا سلسلہ جاری ہے۔ ایسے حالات میں اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ عالمی بحرانوں نے دنیا کی نصف سے زائد غریب آبادی پر مشتمل 54 ممالک کو قرضوں میں ریلیف کی اشد ضرورت میں مبتلا کردیا ہے۔ ایک حالیہ رپورٹ میں اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام نے خبردار کیا ہے کہ درجنوں ترقی پذیر ممالک قرضوں کے تیزی سے گہرے ہوتے بحران کا سامنا کر رہے ہیں اوران کے غیر فعال ہونے کے خطرات سنگین ہیں۔یو این ڈی پی نے کہا کہ فوری ریلیف کے بغیر کم از کم 54 ممالک غربت کی سطح میں اضافہ دیکھیں گے، اور موسمیاتی موافقت اور تخفیف میں سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے۔ادارے کا کہنا تھا کہ یہ تشویشناک ہے کہ متاثرہ ممالک دنیا میں سب سے زیادہ موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرے سے دوچار ہیں۔
مذکورہ رپورٹ میں فوری کاروائی کی ضرورت پر روشنی ڈالی گئی جو واشنگٹن میں عالمی مالیاتی فنڈ، ورلڈ بینک، اور جی 20 کے وزرائے خزانہ کے اجلاسوں سے قبل شائع ہوئی۔یو این ڈی پی کے سربراہ ایچم اسٹینر نے جنیوا میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بار بار انتباہ کے باوجود اب تک بہت کم کام ہوا ہے، اور خطرات بڑھ رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ یہ بحران شدت اختیار کر رہا ہے اور دنیا بھر کے درجنوں ممالک میں ایک مضبوط ترقیاتی بحران پھیلنے کا خطرہ ہے۔انہوں نے کہا کہ غریب، مقروض ممالک کو بدلتے ہوئے معاشی دبا ؤکا سامنا ہے اور بہت سے لوگوں کو اپنے قرض کی ادائیگی یا نئی مالی اعانت تک رسائی ناممکن نظر آتی ہے۔اقوام متحدہ کے ادارے نے کہا کہ کووڈ 19 وبائی بیماری کے متاثر کرنے سے بہت پہلے سے متاثرہ ممالک میں قرضوں سے متعلق پریشانیاں پیدا ہو رہی تھیں۔رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ گزشتہ دہائی میں تیزی سے بڑھتے ہوئے قرضوں کو مسلسل عدم توجہ کا شکار رکھا گیا۔
دستیاب اعداد و شمار کے مطابق 54 میں سے 46 ممالک نے 2020 میں مجموعی طور پر 782 ارب ڈالر کا عوامی قرضہ لیا، اس رقم میں ایک تہائی سے زیادہ حصہ صرف ارجنٹائن، یوکرین اور وینزویلا کا ہے۔اس حوالے سے صورت حال تیزی سے بگڑ رہی ہے، ترقی پذیر ممالک میں سے 19 اب موثر طریقے سے قرض دینے والی منڈی سے باہر ہو چکے ہیں، جن کی تعداد سال کے آغاز میں 10 تھی۔یو این ڈی پی کے چیف اکانومسٹ جارج گرے مولینا کے مطابق تمام ترقی پذیر معیشتوں میں سے ایک تہائی نے اس دوران اپنے قرضوں کو کافی خطرے یا ڈیفالٹ کے طور پر دیکھا ہے۔گرے مولینا نے کہا کہ نجی قرض دہندگان اب تک ضروری تنظیم نو کے ساتھ آگے بڑھنے میں سب سے بڑی رکاوٹ رہے ہیں۔
انہوں نے تجویز پیش کی کہ مارکیٹ کے موجودہ حالات قرضوں کے سودے کی راہ ہموار کر سکتے ہیں کیونکہ نجی قرض دہندگان اپنے ہولڈنگز کی قدر میں 60فیصد تک گرتے ہوئے دیکھتے ہیں‘ گرے مولینا نے تسلیم کیا کہ لیکن رضامند قرض دہندگان درحقیقت قرض سے نجات کے انتہائی ضروری معاہدے کو ختم کرنے کے لئے کافی نہیں ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس وقت جو چیز موجود نہیں ہے وہ بڑے قرض دہندگان کی حکومتوں کی جانب سے معاہدہ کرنے کیلئے مالی یقین دہانیاں ہیں۔یو این ڈی پی عہدیدار نے اس امید کا اظہار کیا کہ بین الاقوامی برادری آخرکار اس بات کو تسلیم کر لے گی کہ یہ کاروائی سب کے مشترکہ مفاد میں ہے‘انہوں نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک کی مدد کرنا اور ان کو قرضوں میں سہولت دینا یقینا عالمی کساد بازاری سے نمٹنے کے مقابلے میں بہت سستا اور موثر اقدام ہے۔