رواں ہفتے کی سب سے اہم پیشرفت ’سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری‘ کی جانب سے پاکستان اور ایران کے درمیان تجارت کے فروغ کا مطالبہ ہے جس کے لئے تجارتی و کاروباری حلقوں کی نمائندہ تنظیم نے مختلف شعبوں میں باہمی اقتصادی اور تجارتی تعلقات کے وسیع مواقعوں کی جانب توجہ مبذول کروائی ہے۔ صنعتکاروں‘ برآمدکنندگان‘ درآمدکنندگان اور تاجر نمائندوں پر مشتمل ’ایوان ہائے صنعت و تجارت‘ نے ایران سمیت ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے ’باہمی تعاون‘ کے لئے مشترکہ اقدامات کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ پشاور میں ایران کے کمرشل اتاشی فرسٹ قونصل حسین مالکی نے ’چیمبر ہاؤس‘ کا دورہ کیا ہے اور اِس موقع پر تجارتی تعلقات مستحکم کرنے کے طریقوں اور مواقع پر رسمی تبادلہ خیال ہوا جو اگرچہ ماضی میں بھی کیا جاتا رہا ہے تاہم اِس سطح پر رابطے بحال ہونا بہرحال اہم پیشرفت ہے کیونکہ سرحد چیمبر ’تجارتی نمائش‘ کے انعقاد کا ارادہ رکھتا ہے‘ جس کا مقصد مقامی طور پر پیداواری مصنوعات کو فروغ دینا اور خطے کے ممالک کے ساتھ تجارت بڑھانے کے لئے ’حائل رکاوٹیں‘ دور کرنے کے لئے سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے یقینا باہمی افہام و تفہیم اور ہم آہنگی باہمی تجارت میں حائل رکاوٹیں ختم کر سکتی ہے۔
آئندہ چند ہفتوں میں ایران چیمبر کے صدر کا دورہ پاکستان بھی متوقع ہے جس دوران اُنہیں پشاور کا دورہ بھی کرنا چاہئے اور اِس دورے کو ممکن بنانے کے لئے پشاور میں تعینات ایرانی قونصلیٹ کے عملے کو کلیدی کردار ادا کرنا ہے۔دنیا کی چند قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک جمہوریہ اسلامی ایران‘ مغربی ایشیا میں واقع ہے، جس کی سرحد مغرب میں عراق اور ترکی‘ شمال مغرب میں آذربائیجان اور آرمینیا‘ شمال میں بحیرہ کیسپین اور ترکمانستان جبکہ مشرق میں افغانستان اور پاکستان سے ملتی ہے اور یہ خلیج عمان اور جنوب میں خلیج فارس سے بھی ملا ہوا ہے۔ براعظم ایشیا کے اِس چوتھے بڑے ملک اور سعودی عرب کے بعد مغربی ایشیا کے دوسرے بڑے اِس ملک کی آبادی ساڑھے آٹھ کروڑ (پچاسی ملین) ہے اور آبادی کے لحاظ سے یہ دنیا کا سترہواں بڑا ملک ہے۔ ایران عالمی اقتصادی پابندیوں کے باوجود علاقائی طاقت ہے‘ جس کا جغرافیائی طور پر سٹریٹجک مقام ایشیائی براعظم میں اِس کی اہمیت کا ثبوت ہے۔ اقوام متحدہ اور ای سی او‘ او آئی سی اور اوپیک تنظیموں کے بانی رکن ہونے کے ساتھ حال ہی ایران کو شنگھائی تعاون تنظیم میں شامل کیا گیا ہے۔
ایران کے پاس تیل و گیس کے ذخائر ہیں‘ جن سے پاکستان فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔ پاکستان اور ایران کے درمیان گہرے تاریخی‘ ثقافتی‘ لسانی اور مذہبی تعلقات ہیں۔ یہ دوستانہ تعلقات 1947ء سے شروع ہوئے جب ایران وہ پہلا ملک تھا جس نے پاکستان کی نئی قائم شدہ ریاست کو تسلیم کیا اور پھر 1950ء میں دونوں ممالک نے دوستی کے ایک معاہدے پر دستخط بھی کئے۔ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کے حالیہ بیان سے عیاں ہے کہ ایران پاکستان کو کس قدر اہمیت دیتا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ”ایران پاکستان کے ساتھ اقتصادی‘ کاروباری‘ توانائی‘ نقل و حمل اور ثقافتی شعبوں میں تعاون بڑھانے کی خواہش رکھتا ہے اور تعلقات میں کوئی سرحد نہیں دیکھتا۔“ دونوں ممالک کی قیادت کے درمیان ملاقاتیں اور بات چیت جامع باہمی تعاون کی کلید ہے۔
پاکستان ایران کا آٹھواں بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ پاکستان اور ایران کے درمیان تجارت کو مزید فروغ دینے کے وسیع امکانات موجود ہیں‘ جو پاکستانی برآمدات میں بنیادی طور پر چاول‘ گوشت‘ کاغذ‘ کاغذی بورڈ‘ کیمیکلز‘ ٹیکسٹائل‘ پھل اور سبزی شامل ہے اِس تجارت کا کل سالانہ حجم قریب چالیس کروڑ (392.08 ملین) ڈالر ہے جبکہ ایران سے پاکستان کو درآمدات میں خام لوہا‘ کھالیں‘ کیمیائی مصنوعات اور زرعی اجناس شامل ہیں۔ پاک ایران دوطرفہ تجارت کے فروغ اور دونوں ممالک کے درمیان تعاون بڑھانے کے لئے جاری کوششوں میں تازہ ترین سولہ سے اٹھارہ اگست دوہزاربائیس کو دیکھنے میں آئی جب پاکستان کی میزبانی میں ”پاک ایران مشترکہ اقتصادی کمیشن (جے ای سی)“ کا 21واں اجلاس ہوا اور اِس اجلاس میں دونوں ممالک نے دو طرفہ تجارتی حجم بڑھانے کے لئے ’اینٹی ٹریڈ ٹیرف‘ اور ’نان ٹیرف‘ جیسی رکاوٹیں دور کرنے پر اتفاق کیا۔ اِسی اتفاق رائے کی بدولت اگلے چھ مہینوں میں پاک ایران آزاد تجارتی معاہدے پر دستخط بھی متوقع ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ پاکستان اور ایران نے جون 2022ء میں زاہدان (ایران) میں ہونے والی مشترکہ تجارتی کمیٹی اجلاس کے دوران بتیس نکاتی مفاہمت کی یادداشت پر بھی دستخط کر رکھے ہیں جس کے تحت۔ دونوں ممالک سال 2023ء تک سالانہ تجارت بڑھانے کے لئے اقدامات کرنے پر متفق ہوئے ہیں۔ پاکستان نے تجارت کو آسان و فعال بنانے کے لئے گبد ریمدان میں ایک اضافی سرحدی کراسنگ پوائنٹ بھی فعال کیا ہے۔ اِسی طرح چین‘ ایران‘ تاجکستان‘ ترکمانستان‘ ازبکستان اور پاکستان نے افغانستان میں اُبھرتی ہوئی صورتحال سے نمٹنے کے لئے ایک پلیٹ فارم قائم کیا ہے اور جب کبھی بات علاقائی سلامتی کی آتی ہے تو پاکستان اور ایران کی قیادت کے خیالات اور مؤقف ایک ہی ہوتا ہے۔ ایران پاکستان گیس پائپ لائن‘ منصوبے جسے ’پیس پائپ لائن‘ بھی کہا جاتا ہے کی تکمیل سب سے پہلی ہونی چاہئے۔
پاکستان میں گیس کا بحران اِس حد تک شدت اختیار کر چکا ہے کہ موسم گرما میں جبکہ گیس کی طلب نصف سے بھی کم رہ جاتی ہے لیکن اِس دوران گیس کی لوڈشیڈنگ جاری رہی اور اب موسم سرما کے دوران گیس کی فراہمی طلب بڑھنے کے باعث مزید کم ہو جائے گی۔وقت ہے پاکستان اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے صرف ایران ہی نہیں بلکہ دیگر ہمسایہ ممالک اور بالخصوص وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو وسعت دے اور ایران پاکستان (آئی پی) گیس پائپ لائن کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کیا جائے۔ پاک ایران تعلقات کے مستقبل کی تشکیل میں چینی عنصر غالب اور انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور اُمید ہے کہ ’چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک)‘ منصوبے کے عملاً نفاذ سے دونوں ممالک ایک دوسرے کے مزید قریب ہو جائیں گے۔