فہم و فراست کا امتحان

روس یوکرائن جنگ (چوبیس فروری دوہزاربائیس سے) اب تک 29 ہزار 916 اموات‘ 53 ہزار 616 زخمی‘ 1 کروڑ 40 لاکھ افراد بے گھر اور مجموعی طور پر 350 ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے‘ اِس جنگ کے 232 ایام (13 اکتوبر 2022ء تک) کا نتیجہ تیل کی عالمی منڈی اور بالخصوص یورپی ممالک میں توانائی بحران کی صورت ظاہر ہوا ہے جبکہ پاکستان جیسے ممالک جو اپنی پیٹرولیم ضروریات کے لئے زیادہ تیل ذخیرہ نہیں کرتے وہ بھی روس یوکرائن جنگ سے متاثرین میں شامل ہیں۔ یورپی یونین اور برطانیہ میں روسی تیل کی درآمدات اگست میں 35فیصد کمی آئی ہے‘ جنگ شروع ہونے سے قبل (جنوری دوہزاربائیس) میں یورپی ممالک بشمول برطانیہ مجموعی طور پر یومیہ چھبیس لاکھ بیرل تیل روس سے خریدتے تھے جو کم ہو کر 17 لاکھ بیرل یومیہ ہو چکا ہے اور ظاہر ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی ضرورت کم نہیں ہوئی لیکن اِس کی درآمد اور دستیابی میں کمی کی وجہ سے یورپی یونین کے ممالک اور برطانیہ میں پٹرولیم مصنوعات کی قلت کے باعث قیمتیں بڑھی ہیں اور یہ ممالک تمام تر ترقی اور جامع منصوبہ بندی کرنے کے باوجود بھی ایک طرح کی بحرانی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں‘ بین الاقوامی توانائی ایجنسی کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق ”یورپی یونین روسی خام تیل کی سب سے بڑی منڈی ہے اور اب بھی اپنی پیٹرولیم ضروریات کے لئے روس ہی پر انحصار کر رہی ہے“ بارہ اگست کے روز ایک اور اہم پیشرفت یہ سامنے آئی جب پولینڈ نے کہا کہ اس نے روس سے آنے والی تیل کی پائپ لائن میں رساؤ کا پتہ لگایا ہے‘ یہ پائپ لائن روس سے یورپ تک تیل لے جاتی ہے۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے کہ  قبل ازیں ’گیس پائپ لائن‘ کے لیک (leak) ہونے کے بعد یورپ کو لاحق توانائی کے ایک اور بحران اور خدشات کو بڑھا رہا ہے۔ یوکرین پر ماسکو کے حملے کے بعد برطانیہ نے پہلے ہی روسی خام تیل کی درآمد روک دی تھی جبکہ یورپی یونین نے دسمبر سے روسی تیل خریدنے پر پابندی عائد کی ہے تاکہ خام تیل کی فروخت سے روس کو حاصل ہونے والی آمدنی کم کی جا سکے جس کے بارے میں کہا گیا کہ وہ یوکرائن کے خلاف جنگ میں استعمال ہو رہی ہے۔ اس پابندی سے صرف یورپی ممالک اور برطانیہ ہی نہیں بلکہ دنیا کے کئی ممالک خام تیل کی کمی کے باعث قلت سر اُٹھا رہی ہے۔ امریکہ اپنی پیٹرولیم ضروریات ’ناروے‘ سے خام تیل خرید کر پوری کر رہا ہے۔ بین الاقوامی توانائی ایجنسی کے مطابق امریکہ روس سے یومیہ اوسطاً 13 لاکھ بیرل خام تیل خرید رہا تھا جسے کم کر کے 40 ہزار بیرل یومیہ کر دیا گیا ہے۔ یورپی یونین‘ برطانیہ اور امریکہ جیسے بڑے خریداروں کے علاؤہ روس کے خام تیل کے بڑے خریداروں (برآمدی مارکیٹوں) میں چین‘ بھارت اور ترکی شامل ہیں۔ تازہ ترین پیشرفت یہ بھی ہوئی ہے کہ روسی قیادت کی جانب سے ترکی کے کردار کے حوالے سے اشارہ دیا گیا ہے کہ وہ یوکرائن کے ساتھ جنگ کے خاتمے کے لئے ثالث کا کردار ادا کریں گے۔بنیادی سوال یہ ہے کہ دنیا کے پاس روسی خام تیل کے متبادل کیا ہے؟ بین الاقوامی توانائی ایجنسی کے مطابق ”روسی تیل پر لگنے والی پابندیوں کے تحت‘ یورپی یونین کو روسی خام تیل کے اضافی چودہ لاکھ بیرل یومیہ کسی دوسرے ذریعے سے خریدنا ہوگا۔ جس کے لئے امریکہ تین لاکھ بیرل یومیہ اور قازقستان چار لاکھ بیرل یومیہ فراہم کر سکتے ہیں۔ ناروے کا سب سے بڑا آئل فیلڈ ’جوہان سوورڈروپ‘ جو روس کے یورالز کی طرح درمیانے درجے کا بھاری خام تیل پیدا کرتا ہے‘ چوتھی سہ ماہی میں ممکنہ طور پر یومیہ ’دو لاکھ بیس ہزار بیرل‘ تک پیداوار بڑھانے کا ارادہ رکھتا ہے یورپی ممالک کی خام تیل سے متعلق طلب پوری کرنے کے لئے مشرق وسطیٰ اور لاطینی امریکہ جیسے دیگر علاقوں سے درآمدات کی ضرورت ہوگی۔ کچھ روسی تیل پائپ لائنوں کے ذریعے یورپی یونین کو فراہم کیا جاتا ہے جس کی خریداری جاری رکھی گئی ہے اور روس بھی پائپ لائن کے ذریعے فراہم کئے جانے والے تیل کو نہیں روک رہا۔ بین الاقوامی توانائی ایجنسی کی تحقیق میں اِس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے کہ یورپی یونین کا روسی خام برآمدات پر انحصار کس قدر ہے؟ جرمنی‘ ہالینڈ اور پولینڈ گزشتہ سال یورپ میں روسی تیل کے سب سے زیادہ درآمد کنندگان رہے۔ مشرقی یورپ کے وہ ممالک جو سمندری ساحل نہیں رکھتے ایسے ممالک کو ’لاکڈ لینڈ‘ کہا جاتا ہے جیسا کہ سلوواکیا یا ہنگری روس سے بذریعہ پائپ لائن خام تیل خریداری کے محتاج ہیں۔ روس پر یورپی یونین کا انحصار بھی جن کمپنیوں پر ہے وہ تیل صاف کرنے کے کارخانوں (ریفائنریز) کو کنٹرول کرتی ہیں۔ روسی خام تیل اگر کچھ ممالک کو کم مقدار میں مل رہا ہے تو کچھ ایسے بھی ہیں جو اِسے ماضی کے مقابلے زیادہ خرید رہے ہیں جیسا کہ اٹلی اور ہالینڈ کے پیٹرولیم مصنوعات کی ضروریات روسی خام تیل ہی سے پوری کی جا رہی ہیں اور جہاں روسی تیل کی بڑی کمپنی ’لوکوئیل‘ تیل صاف کرنے کے کارخانوں (ریفائنریز) کی مالک ہے۔ جرمن حکومت نے سولہ ستمبر کو ایک ریفائنری کا کنٹرول سنبھال لیا جو برلن کی ایندھن کی تقریباً نوے فیصد ضروریات فراہم کرتی ہے۔ اِس پورے منظرنامے میں یورپی ممالک اور برطانیہ کے صارفین کو مشکلات درپیش ہیں اور لب لباب یہ ہے کہ روس یوکرائن جنگ کی وجہ سے صرف 2 ممالک ہی نہیں بلکہ دنیا کا ہر ملک کسی نہ کسی صورت متاثر ہے اور یہی وہ نکتہ ہے جو جنگوں کی بجائے مذاکرات کے ذریعے تنازعات کے حل کی ضرورت جانب متوجہ کر رہا ہے۔ آزمائش کی یہ گھڑی انسانی علم و دانش اور فہم و فراست کا امتحان بھی ہے۔