ہم کو خزاں نے تم کو سنوارا بہار نے 

 پت جھڑ کا سنہرا موسم شروع ہو چکا ہے جن علاقوں میں اسوج کے وسط ہی سے سردی اپنا ڈیرہ جمانا شروع کر دیتی ہے وہاں درختوں کے تیزی سے زرد ہوتے ہوئے پتے گرنے لگتے ہیں تو باغوں میں تھانولے، روش روش اور صحن  چمن ان پتوں سے جیسے اٹ جاتا ہے،یہی حال ان راستوں اور شاہراؤں کا بھی ہو تا ہے جن کے کنارے اونچے لانبے درخت ایستادہ ہو تے ہیں، اس موسم کے اپنے پھول ہیں لیکن بہت سے علاقے ایسے بھی ہیں جہاں پھولوں سے زیادہ خوشنما درختوں کے پتے ہوتے ہیں جو خزاں کی آمد کے ساتھ ہی اپنا رنگ بدل لیتے ہیں، میں نے ایسا ہی ایک پت جھڑ امریکہ میں کیپ کاڈ (میسا چوسٹ) کے جزیرے میں گزارا ہے جہاں دوست مہرباں عتیق صدیقی کا موٹل تھا، وہاں درختوں کے پتوں کے بدلتے رنگ دیکھ کر بہت حیران ہوا تھا‘ امریکہ کے پت جھڑ سے یہ میرا تعارف تھا، اس سے پہلے خزاں کا مطلب پتوں کا زرد ہوکر گرنا ہی دیکھا سنا تھا،اس موسم میں چلنے والی ہواؤں میں ہلکی ہلکی خنکی بھی شامل ہو جاتی تھی، بچپن میں سکول کی کتابوں میں ہمیں پڑھایا گیا تھا کہ چار موسموں میں سے سب سے اچھا موسم بہار کا ہے، کیونکہ اس موسم میں رنگا رنگ پھول کھلتے ہیں اور ہوائیں خوشبوئیں بانٹتی پھرتی ہیں، اس کے مقابلے میں جب جب خزاں کی ہوائیں چلتی ہیں تو وہ سارے گلشن کو تاراج کر دیتی ہیں، ان اسباق نے ہمیں خزاں سے بڑی حد تک مایوس کر دیا تھا اور پھر لڑکپن میں جب موسیقی سے کچھ کچھ شناسائی ہوئی تو کشور کمار کے اس گیت نے بھی خزاں سے مزید دور کر دیا۔
 خزاں کے پھول پر آتی کبھی بہار نہیں 
 میرے نصیب میں اے دوست تیرا پیا ر نہیں 
ذرا دیر سے سہی مگر پھر سارے موسموں سے دوستی ہو گئی ہر موسم کا اپنا ایک حسن اور ایک الگ سے د لفریبی اور طرح داری ہے، ہمارے اردو اور پاکستانی زبانوں کے شاعروں کو بھی بہار کا موسم بہت بھاتا ہے لیکن جب پہلی بار ”جان کیٹس“ کی بے بدل نظم ”اوڈ ٹو آٹم“ پڑھی تو خزاں سے کچھ ایسی محبت ہو گئی کہ تب سے اب تک پسندیدہ موسم خزاں کا ہے جب درختوں کے ہاتھ پتوں سے خالی ہو جاتے ہیں، کیٹس اسے دھند کا اور پھلوں کے اندر تک پکنے کا موسم کہتا ہے اور پھر اس کو اور رومانی بناتے ہوئے کسی خوابیدہ سی فصل کاٹنے والی سے رشتہ جوڑ دیتا ہے۔ یہ فصلوں کی کٹائی کا موسم ہونے کے ناتے بھی اہمیت رکھتا ہے اور میں جب اکوڑہ خٹک سے پشاور آیا تو خزاں اور موسم سرما کے سنگم پر کھلنے والے ان گنت رنگوں کے پھولوں کو دیکھا یہ ”گل داؤدی“ کہلاتے ہیں اور جب ان پر بہار آتی ہے تو دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں دور تک پھیلے ہوئے ان پھولوں کی قطاریں دل خوش کن منظر پیش کرتی ہیں  اور پھر سرما کے آغاز میں ہی جگہ جگہ ان کی نمائش کا اہتمام کیا جاتا ہے اور کوئی کشور کمار کو جا کر نہیں کہتا کہ خزاں کے پھولوں پر تو
 اپنی بھی ایک مستی بھری بہار چھا جاتی ہے لیکن معتدل رت ہونے کی وجہ سے یہ موسم شادیوں کا موسم بھی کہلاتا ہے اس لئے فضاؤں میں خو شیوں کے شادیانے بجنے کی آواز بھی آتی ہے اور کبھی کبھی رات کے وقت دور کہیں بہت دور سے دل سے ایک درد بھری ہوک سی اٹھانے والی شہنائی کی آواز بھی سنائی دیتی ہے جو ماحول میں ایک اداسی سی بھر دیتی ہے، شہنائی کے ساتھ ساتھ ڈھولک کی تھاپ بھی اس اداسی کو کچھ اور گھمبیر کر دیتی ہے، شاید اسی لئے شکیب جلالی کو کہنا پڑا تھا۔
 رہتے ہیں کچھ ملول سے چہرے پڑوس میں 
 اتنا نہ تیز کیجئے ڈھولک کی تھاپ کو 
شادیوں کے موسم میں بارات کے ساتھ براس بینڈ باجے سے پہلے محض دو ہی انسٹرومنٹ ”ڈھول اور شہنائی (سرنا) مقبول اور رائج تھے، شہنائی کی آواز کو تو گھر سے وداع ہونے والی دلہن کے جذبات اور احساسات کی صحیح ترجمان قرار دیا جاتا ہے، ایک درد بھرا گیت محمدرفیع نے شہنائی کے حوالے سے گایا ہے، کیا عجب ساز ہے یہ شہنائی۔۔۔۔
 آہ کا اور واہ کا یہ سنگم ہے 
 سو ز اور ساز کی جوانی ہے
 قہقہوں کا ہی آبشار نہیں 
 آنسوؤں کا بھی ایک دھارا ہے 
 گویا اس میں دونوں موسم سانس لیتے ہیں۔پہلے پہل عام سائز کے ڈھول اور سرنائی کے ساتھ  بڑے ڈھول اور پائپ بینڈ کا اضافہ ہوا تھا، ہمارے گاؤں میں بارات کے ساتھ جو موسیقی عام تھی اس میں ڈرم تو ذرا دیر سے شامل ہوا لیکن پائپ بینڈ لازمی جزو تھا جس کے بجانے والے ہنر مند کا اصل نام تو معلوم نہیں لیکن وہ ”جمنے باجے والا“ کے نام سے مشہور تھا، اس کا چھریرا سا لانبا قد تھا اور جب منہ سے پائپ الگ کرتا تو سونے کا ایک چمکتادانت نظر آتا، کمال فنکار تھا جب وہ فلمی گیت کی کوئی دھن چھیڑتا تو میں نے بڑے بڑے وضع دار بزرگوں کو بھی اس کا طرفدار بنتے دیکھا ہے۔ اس کا اپنا فیورٹ گیت ”احسان ترا ہوگا مجھ پر“ تھا جب کہ فرمائش پر ”کاہے جادو کیا جادوگر بالما“ کی وہ دھن چھیڑتا تو ساری بارات کو چپ کرا دیتا۔ آج کل بارات کے مقبول بینڈز میں براس بینڈ کا عمل دخل زیادہ ہے کیونکہ اس میں ایک جوش اور مستی ہے جس کے ساتھ نوجوان اپنا دھوم دھڑکا بھی خوب کرتے ہیں مگر پائپ بینڈ کی دھنوں میں ایک نرم سی اداسی ہوتی ہے اور یہ وہی اداسی ہے جو پت جھڑ کے حسن میں بھی اضافہ کرتی ہے جس طرح شادی کے تو معنی ہی خوشی کے ہیں مگر رخصتی کے گیتوں میں ایک اداسی کی کیفیت بھی ہوتی ہے جس میں عموماً شہنائی کی دھن اور درد بھر دیتی ہے۔ شاید اسی لئے زیادہ ترشادیاں پت جھڑ کے موسم میں ہی ہوتی ہیں اور ان شادی بیاہ کی خوشیاں آنسوؤں سے دھل کر ہی نکھرتی ہیں، اس لئے مان لینا چاہئے کہ بہار کا حسن اپنی جگہ، مگر پت جھڑ کی سنہری رت بھی دلوں کو کہیں بہت اندر سے چھو کر سرشار کر دیتی ہے۔اجتبیٰ رضوی نے کہا ہے نا۔
 افسردگی بھی حسن ہے تا بندگی بھی حسن
 ہم کو خزاں نے تم کو سنوارا بہار نے