پشاور میں صاف پانی کی دستیابی ایک سنگین مسئلہ ہے شہر کی اکثر پائپ لائنیں ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے سیوریج لائنوں سے گزر رہی ہیں‘ پائپ بوسیدہ ہونے کی وجہ سے سیوریج کا گندا اور زہریلا پانی بھی پینے کے پانی میں شامل ہوتا ہے جس کی وجہ سے ہیپا ٹائٹس سمیت کئی مہلک بیماریاں پھیل رہی ہیں‘ڈبلیو ایس ایس پی نے حال ہی میں صاف پانی کی فراہمی کے لئے پشاور میں اپنی نوعیت کا پہلا خود کار نظام نصب کردیا ہے۔نیانظام ریموٹ مانیٹرنگ اور آٹومیشن پر مشتمل ہے یہ صوبے میں اپنی نوعیت کا پہلا جدید نظام ہے پہلے مرحلے میں پشاور میں 46 ٹیوب ویلوں کو خود کار نظام پر منتقل کیا گیا ہے مانیٹرنگ کے لئے 6 ڈیوائسز اور 6 فلومیٹرز نصب کئے گئے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ نظام کی تنصیب سے توانائی کی بچت ہوگی‘ تجزیئے کے لئے پانی کے نمونے خود کار طریقے سے لے کر فوری ٹیسٹ کیا جائے گا۔ جدید نظام کی بدولت پانی کی لیکیج، اور تکینکی خرابی کی بروقت نشاندہی کی جاسکے گی۔نئے نظام سے فی الحال پشاور کی 70 ہزار آبادی مستفید ہوگی۔غیر ملکی فنڈنگ سے واٹر پیوری فی کیشن کا نیا نظام مخصوص علاقوں میں شروع کیا گیا ہے۔ان پوش علاقوں میں صاف پانی کی ترسیل کا نظام پہلے بھی دیگر علاقوں کی نسبت بہتر تھا۔نئے پراجیکٹ کا تجربہ کامیاب ہونے کی صورت میں اس نظام کا دائرہ پورے شہر اور ترجیحی بنیادوں پر نواحی علاقوں تک بڑھانے کی ضرورت ہے۔پشاور کے جو علاقے آلودہ پانی اور سیوریج کے ناقص نظام کی وجہ سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں ان میں چارسدہ روڈ، ورسک روڈ، جی ٹی روڈ اور یونیورسٹی روڈ سے متصل علاقے سرفہرست ہیں۔یہاں پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی کی شکایات اخبارات میں شائع ہوتی رہتی ہیں‘ نواحی علاقوں میں یا تو پانی سرے سے دستیاب ہی نہیں، یا پھر چند گھنٹوں کے لئے پانی آتا ہے‘لوگ اپنی گھریلو ضروریات کے لئے دیگر علاقوں سے پانی لانے پر مجبور ہیں‘ان علاقوں میں خواتین اور بچوں کو بالٹیاں، کولر اور بوتلیں اٹھائے پانی کے لئے قطاروں میں کھڑے دیکھا جا سکتا ہے۔ صوبائی دارالحکومت میں شہریوں کو صاف پانی نہ ملنا حکومت اور متعلقہ اداروں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ پانی انسانی زندگی کی ایک ناگزیر ضرورت ہے بے ہنگم آبادی کی وجہ سے دیگر مسائل کے ساتھ صاف پانی کی فراہمی سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ جس پرفوری توجہ دینے کی ضرورت ہے‘اس سلسلے میں سنجیدگی سے توجہ نہ دی گئی تو مسقبل میں یہ مسئلہ انتہائی گھمبیر ہو سکتا ہے۔