سیلاب متاثرین کی اِمداد اور بحالی کیلئے کوششوں پر ’عدم اطمینان‘ کا اظہار کرتے ہوئے اراکین ِقومی اسمبلی نے صوبوں کی مقامی انتظامیہ اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ اداروں کو ’شدید تنقید‘ کا نشانہ بنایا ہے اور متاثرہ علاقوں میں جاری امدادی کاروائیوں میں مؤثر کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا ہے اِس وقت پاکستان کے 2 صوبے سندھ اور بلوچستان میں بعداز سیلاب صورتحال انتہائی خراب ہے جہاں سیلاب کے پانی کی نکاسی نہیں ہو رہی‘ اطلاعات ہیں کہ کئی دیہات دو ماہ گزرنے کے باوجود بھی زیرآب ہیں قومی اسمبلی میں سیلاب متاثرین سے متعلق بحث میں حصہ لیتے ہوئے حزب اختلاف کیساتھ حکومت میں شامل قانون سازوں نے بھی ’نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) اور اسکے صوبائی محکموں کی کارکردگی پر تنقید کی اور کچھ اراکین نے تو اِن اداروں کے خاتمے تک کا مطالبہ کردیا لیکن یہ بحث کس قدر سنجیدہ تھی اِسکا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ڈپٹی اسپیکر زاہد درانی نے جب اجلاس ملتوی کیا تو 342 رکنی ’ایوان زیریں (پارلیمنٹ) میں صرف 2 ارکان موجود تھے! بحث میں حصہ لیتے ہوئے ’گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے غوث بخش مہر نے کہا کہ حکمراں اتحاد میں شامل تمام جماعتوں کو وزارتیں مل چکی ہیں لیکن وزرأ دفاتر سے نکل کر سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کرنے کو تیار نہیں اور دوسری طرف ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں نے ایسے وقت میں بھی سیاست نہیں چھوڑی جبکہ تاریخ کا بدترین سیلاب ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا‘ ایسا لگتا ہے کہ جیسے سندھ اور بلوچستان پاکستان کا حصہ ہی نہیں‘ جی ڈی اے ہی کی ایک اور رکن محترمہ سائرہ بانو نے کہا کہ ”اراکین اسمبلی خالی کرسیوں سے صرف اس لئے خطاب کر رہے ہیں تاکہ تقاریر پر فیس بک اور ٹوئٹر پر ’لائیکس‘ ملیں جبکہ برسرزمین حقیقت یہ ہے کہ حالیہ بارشوں نے سندھ حکومت کی گزشتہ چودہ سالہ کارکردگی کا پردہ فاش کردیا ہے“ ایک اور موقع پر وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی محترمہ شیریں رحمان نے وضاحت دی ہے کہ ”موسمیاتی تبدیلی کے باعث ایک موقع پر جب پاکستان کا درجہ حرارت 53 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر گیا تو اِس کی وجہ سے پاکستان کے جنوبی شہر کرہ ارض کے گرم ترین مقامات میں تبدیل ہو گئے‘ برفانی تودے (گلیشیئرز) پگھلنے لگے۔ جنگلات جل گئے‘ فصلیں جھلس گئیں‘ سیلاب سے پاکستان کا ایک تہائی حصہ ڈوب گیا‘ جسکی شدت ’سال دوہزاردس‘ کے سیلاب سے زیادہ ہے‘ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیوں میں اِسلئے رکاوٹ پیش آ رہی ہے کیونکہ سندھ اور بلوچستان میں خیمے لگانے کیلئے بھی زمین نہیں‘ نہ چھتیں بچھی ہیں۔ جہاں تین کروڑ تیس لاکھ سے زائد افراد بے سہارا ہیں“سندھ کا منظرنامہ یہ ہے کہ وہاں کے کھیت کھیلیان جھیلوں میں تبدیل ہو چکے ہیں 70فیصد اراضی ناقابل استعمال ہے‘ غذائی بحران شدت اختیار کر رہا ہے‘دریائے سندھ کے دائیں کنارے 19 لاکھ ایکڑ اراضی اور 66 فیصد زرعی آبادی زیر آب ہے 10 اضلاع کے بارے سیلاب سے ہوئے نقصانات کے مکمل اعدادوشمار نہیں ہیں‘ زرعی و شہری علاقوں میں پانی کی نکاسی کے راستے ڈیڑھ ماہ سے بند ہیں کیونکہ بااثر افراد نے اِن آبی گزرگاہوں پر تجاوزات بنا کر قبضہ کر رکھا ہے یا پھر ہاؤسنگ سوسائٹیز بنا دی گئی ہیں ’سندھ آباد کار بورڈ‘ کے سینئر نائب صدر محمود شاہ نواز کا کہنا ہے کہ ”سیلاب آنے سے پہلے منچھر جھیل کو خالی کر دیا جاتا تو سیلاب کے پانی کا بڑا حصہ منچھر جھیل میں سما جاتا۔ پانی کھڑا ہونیکی دوسری وجہ یہ ہے کہ آبی گزرگاہیں بند ہیں جس سے سیلاب کا پانی وسیع علاقے میں پھیل گیا ہے اور اب اِسے نکلنے کا راستہ نہیں مل رہا سیلاب سے زراعت‘ روزگار اور زرعی معیشت کو نقصان پہنچا ہے۔ ربیع (موسم سرما) کی بوائی نہیں ہو رہی ہے جبکہ خریف (موسم گرما) کی فصلیں بہہ گئی ہیں‘ اندیشہ ہے کہ ربیع سیزن کی نئی فصل 40 سے50فیصد رقبے پر کاشت نہیں ہو سکے گی‘ گندم کی کاشت 10فیصد سے بھی کم رہے گی کپاس کی فصل پہلے ہی 80فیصد ختم ہو چکی ہے غذائی عدم تحفظ جو گزشتہ سال بھی تھا لیکن اِس سال گندم کی فصل نہ ہونے کے باعث یہ غذائی بحران زیادہ شدت سے سامنے آئیگا‘صرف دیہی ہی نہیں بلکہ اِس کے اثرات آئندہ تین سے چھ ماہ میں ’شہری معیشت (اربن اکانومی)‘ پر بھی پڑیں گے جب صنعتوں کیلئے خام مال یا عام آدمی کو روزمرہ استعمال کی اجناس و اشیا نہں ملیں گی!“پاکستان کو سیلاب سے نجات دلانے کیلئے مالی وسائل درکار ہیں اور اِس سلسلے میں درکار فنڈز جمع کرنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں جبکہ اِس سلسلے میں دوست ممالک کے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے کیلئے بھی کوششیں نہیں ہو رہیں؛جن ممالک نے عالمی اپیلوں پر امداد کی حامی بھری تھی وہ اپنے وعدے پورا کرنے میں زیادہ دلچسپی نہیں لے رہے‘ ایک ایسی صورتحال میں کوئی بھی ملک پاکستان کی مدد کیلئے کس طرح آگے آ سکتا ہے جبکہ پاکستان اپنی مدد خود ’دل و جان‘ سے نہ کرنا چاہتا ہو‘ سیلاب متاثرین کی بحالی کیلئے عالمی امداد کا امکان ہر گزرتے دن کم ہو رہا ہے اور ایک ایسا موقع ضائع ہوتا دکھائی دے رہا ہے‘ جس کا بہتر استعمال ممکن تھایہاں مسئلہ انسانی مدد کا ہے لاکھوں لوگ امداد اور بحالی کے منتظر ہیں۔