فروری دوہزاربائیس کے آخر میں جب روس یوکرین جنگ شروع ہوئی تو ایسا لگ رہا تھا کہ روس جیسی بڑی طاقت چند دنوں میں یوکرین کو تسخیر کر لے گی لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ دارالحکومت ’کیف‘ کو فتح کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن حد تک دشوار ہو چکا ہے۔ روس جیسی بڑی طاقت کو یوکرین کو فتح کرنے میں اتنا وقت کیوں لگ رہا ہے؟ وہ کون سے عوامل ہیں جو یوکرین کو روس کے خلاف مزاحمت میں پراعتماد رکھتے ہیں؟ اس کا ممکنہ جواب امریکہ کی طرف سے یوکرین کو جدید ہتھیاروں کی فراہمی ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر‘ یوکرین اور اس کے اٹھارہ پڑوسیوں ممالک کے لئے تین ارب ڈالر کی فوجی امداد انتہائی غیرمعمولی ہے اور اِس نے جنگ کا نقشہ بدل کر رکھ دیا ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ ’روس یوکرین جنگ کون جیت رہا ہے؟‘ اور یہ ضمنی سوال اپنی جگہ لائق توجہ ہے کہ کیا آج تک دنیا کے کسی بھی ملک نے جنگ جیتی ہے؟ روس یوکرین جنگ کے تناظر میں بات کی جائے تو جاری جنگ نہ تو روس نے جیتی ہے اور نہ ہی یوکرین کا پلڑا بھاری ہے بلکہ اسلحہ بنانے والی عالمی کمپنیوں کے وارے نیارے ہیں! اِس حوالے سے ذرائع ابلاغ میں بہت کم بات کی جاتی ہے اور ضرورت ہے کہ یہ پہلو بھی مدنظر رکھے جائیں۔
سال دوہزار سولہ سے دوہزاربائیس کے درمیان امریکہ‘ برطانیہ‘ چین‘ روس‘ فرانس اور جرمنی کی اسلحہ ساز صنعتوں نے دنیا کے مہلک ہتھیاروں کا 80فیصد برآمد کیا۔ یہ سب سے زیادہ اسلحہ برآمد کرنے والے ممالک جنگ کے درمیان یوکرین کو اسلحہ برآمد کرنے میں بھی شامل ہیں تاہم اسلحے کی عالمی منڈی پر امریکہ کا غلبہ ہے۔ اسلحے کی عالمی منڈی میں امریکہ کا حصہ 35فیصد ہے اور وہ جدید ترین (ہائی ٹیک) مہلک ہتھیار تیار کر رہا ہے اُور ایسے ہتھیاروں کا سب سے بڑا ’برآمد کنندہ‘ ہے جیسا کہ ہووٹزر‘ انٹی شپ میزائل‘ اسٹنگر میزائل اور جیولین انٹی ٹینک میزائل۔ امریکہ کی سب سے بڑی ہتھیار تیار کرنے والی کمپنیاں لاک ہیڈ مارٹن‘ بوئنگ‘ نارتھروپ گرومین‘ جنرل ڈائنامکس اور ریتھیون ہیں۔ یہ امریکہ میں قائم بازو تیار کرنے والی کمپنیاں ہیں۔ مزید یہ کہ برطانیہ‘ جرمنی‘ فرانس اور چین جیسے ممالک نے اپنے دفاعی بجٹ میں اضافہ کیا ہے۔ ہتھیار ہاتھوں ہاتھ (کپ کیک کی طرح) فروخت ہو رہے ہیں اور ہتھیاروں کی صنعت کے حصص میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ مثال کے طور پر مختلف متذکرہ اسلحہ ساز جیسا کہ جنرل ڈائنامکس کا حصہ تقریباً بارہ فیصد‘ ریتھیون میں 8فیصد‘ لاک ہیڈ مارٹن میں 18فیصد اور نارتھروپ گرومین کا حصہ 22فیصد بڑھ چکا ہے۔
اگر روس یوکرینجنگ جاری رہتی ہے تو متحارب فریقوں سے زیادہ فائدہ امریکہ کا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ جنگ ختم کرنے کی بجائے اِس بڑھانا چاہتا ہے۔ روس کی جانب یوکرین میں کم سے کم تباہی اور مفاہمت کی کوششوں کی کامیابی کی راہ میں رکاوٹیں حائل کی جا رہی ہیں۔ اگر عالمی طاقت کا یہ رویہ جاری رہا اور جنگ کی حمایت و مخالفت کا یہی عمل جاری رہا تو اپنے دفاع کے لئے کم بجٹ رکھنے والے ممالک جنگ کے لامتناہی خوف میں مبتلا ہو جائیں گی۔ کیا دنیا کو جنگ کے وسائل اور اِس میں سرمایہ کاری پر توجہ دینی چاہئے جس کی انتہا جوہری ہتھیار ہیں!؟ حقیقت یہ ہے کہ دنیا پہلے سے زیادہ غیرمتوقع اور غیریقینی کی صورتحال سے دوچار ہے۔ لیزر ہتھیار‘ خودکار رائفلز اور ہائپر سونک میزائل جیسے ہائی ٹیک ہتھیاروں نے دنیا کو مزید غیر محفوظ بنا دیا ہے۔
ممالک کو سمجھنا ہوگا کہ انسانی ترقی سے زیادہ دفاع پر توجہ دینے سے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔ امریکی صدر ڈوائٹ ڈی آئزن ہاور نے اپنے دور میں (1953-1961) میں بجا طور پر فوجی صنعتی کمپلیکس سے اپنے خوف کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہر بندوق جو بنائی جاتی ہے‘ ہر جنگی جہاز جو لانچ کیا جاتا ہے اور ہر راکٹ جو فائر کیا جاتا ہے‘ حتمی طور پر دنیا میں بھوک و افلاس اور انسانوں کی مشکلات میں اضافہ کرتا ہے۔ دنیا کو غذائی تحفظ چاہئے۔ سر چھپانے کے لئے چھت اور بدن ڈھانپنے کے لئے کپڑا چاہئے لیکن اُن پر جنگیں مسلط ہیں اور اُس وقت تک مسلط رہیں گی جب تک اِس گھناؤنے کھیل کو سمجھ نہیں لیا جاتا اور ہتھیار کے عالمی سوداگر مالی خواہشات کی تکمیل کے لئے انسانوں کی صلاحیتوں سے غلط فائدہ اٹھاتے رہیں گے۔