ضمنی انتخابات کا دنگل

خیبر پختونخوا میں قومی اسمبلی کے تین حلقوں میں آج ضمنی انتخابات کے لئے پولنگ ہو رہی ہے۔ تینوں حلقوں سے کل 15 امیدوار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں‘ ان حلقوں میں این اے- 31 پشاور، این اے- 22 مردان اور این اے- 24 چارسدہ شامل ہیں‘ تینوں حلقوں میں ڑجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 14 لاکھ 50 ہزار 689 ہے جن میں سے پانچ لاکھ 87 ہزار 738 مرد اور چار لاکھ 66 ہزار 320 خواتین ووٹرز شامل ہیں۔ این اے- 31 پشاور میں ووٹرز کی تعداد چار لاکھ 73 ہزار 180 ہے جن میں دو لاکھ 62 ہزار 289 مرد اور دو لاکھ 10 ہزار 891 خواتین ووٹرز شامل ہیں۔ جبکہ این اے- 22 مردان میں ووٹرز کی کل تعداد چار لاکھ 50 ہزار 467 ہے جن میں مرد ووٹرز کی تعداد دو لاکھ 54 ہزار 733 اور خواتین ووٹرز کی تعداد ایک لاکھ 95 ہزار 914 ہے۔ این اے- 22 چارسدہ میں ووٹرز کی مجموعی تعداد پانچ لاکھ 26 ہزار 862 ہے جن میں مرد ووٹرز دو لاکھ 91 ہزار 16اور خواتین ووٹرز دو لاکھ 35 ہزار 846 ہیں۔

 این اے- 31 پشاور کے لیے 265 پولنگ اسٹیشنز قائم کئے گئے ہیں جن میں 146 مردانہ، 117 خواتین اور دو مشترکہ پولنگ سٹیشنز شامل ہیں۔ این اے- 22 مردان میں مردانہ پولنگ اسٹیشنز 87، زنانہ 80 جبکہ 163 مشترکا پولنگ اسٹیشنز ہیں جبکہ این اے- 24 چارسدہ میں 384 پولنگ اسٹیشنز قائم کئے گئے ہیں جن میں 196 مردانہ، 154 زنانہ اور 34 مشترکا پولنگ سٹیشنز شامل ہیں۔پشاور، مردان اور چارسدہ کے ضمنی انتخابات میں 745 پولنگ اسٹیشنوں کو زیادہ حساس اور 234 کو حساس قرار دیا گیا ہے۔تینوں حلقوں سے پاکستان تحریک انصاف کے قائد اور سابق وزیراعظم عمران خان خود الیکشن لڑ رہے ہیں۔جس کی وجہ سے یہ حلقے قومی اور بین الاقوامی میڈیا کی توجہ کا مرکز بن گئے ہیں۔ 

این اے 31 پشاور سے سینئر سیاست دان اور عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار حاجی غلام احمد بلور سابق وزیر اعظم کے مدمقابل ہیں‘عام انتخابات کی نسبت ضمنی انتخابات میں ووٹرز کی دلچسپی کم ہوتی ہے۔اس بار ضمنی انتخابات کی اہمیت اس وجہ سے مزید کم ہو گئی ہے کہ نومنتخب ارکان کی مدت چند مہینے کی ہی ہوگی۔ یہ ضمنی انتخابات ان حلقوں میں ہو رہے ہیں۔جنہیں پی ٹی آئی کے ممبران قومی اسمبلی نے استعفے دے کر خالی کیا تھا۔اس سے قطع نظر کہ ان انتخابات میں کس کی جیت ہوتی ہے اور کس کی ہار، یہ دیکھنا ضروری ہے کہ انتخابی عمل جمہوریت کے استحکام کیلئے ضروری ہے اور اس کے فوائد اور ثمرات سے تب ہی استفادہ کیا جاسکتا ہے۔

 جب انتخابی عمل کو جمہوریت کے ایک اہم حصے کے طور پر دیکھا جائے اور اسے ذاتی دشمنی میں تبدیل نہ کیا جائے۔ جو بھی پارٹی جیتے اسے ہارنے والوں کو طعنے دینے سے گریز کرنا چاہئے اور جو ہارے اسے جیتنے والے کو مبارکباد دے کر بڑے پن کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔دیکھا جائے تو جن ممالک میں جمہوری رویئے پروان چڑھے ہیں تو وہاں پر انتخابات کا عمل پرامن ہی رہتا ہے اور کبھی ایسے واقعات پیش نہیں آتے کہ جس میں سیاسی اختلافات ذاتی رنجش میں تبدیل ہوں ہمارے ہاں بھی اب رواداری اور تحمل کا مظاہرہ کرنا انتخابی عمل کا حصہ ہونا چاہئے۔