اردو ادب کی سب سے مشہور تصنیف مدوجذر اسلام کے خالق مولانا الطاف حسین حالی نے جب اپنی نظم چپ کی داد لکھی تو ان پر بڑے اعتراضات ہوئے۔ انہوں نے اپنی نظم میں ماں، بہنوں اور بیٹیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ تم ہی قوموں کی عزت، گھروں کی شہزادیاں، شہروں کی آبادیاں، نیکی کی تصویریں، دین کی پاسبان اورشوہروں کی غم خوار ہو‘ تمہارے بنا گھر ویران ہے۔ بلاشبہ عورت ماں، بہن، بیٹی، بہو، نواسی، پوتی سمیت ہر رشتے میں نعمت خداوندی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرکار دوعالم نے بیٹی کی پیدائش کو خاندان پر رحمت کا نزول قرار دیا تھا۔ اردو ادب کی ایک اور قد آور شخصیت حضرت علامہ اقبال نے خواتین کے حوالے سے جو ایک مصرعہ کہا ہے وہ پورے دیوان پر بھاری ہے، شاعر مشرق کہتے ہیں کہ وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ۔ اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز درون۔خواتین کی گھریلو امور اور سماجی معاملات میں غیر معمولی اہمیت اور ان کی صلاحیتوں کے سب ہی معترف ہیں۔انہیں زیادہ سے زیادہ ذمہ داریاں سونپنے کے بھی سب لوگ روادار ہیں مگر جب بات صنفی مساوات اور خواتین کو ان کے جائز قانونی اور آئینی حقوق دینے کی بات آتی ہے تو اس کی مخالفت میں خود ساختہ تاویلیں پیش کی جاتی ہیں۔ ہمارے ملک کے متفقہ دستور میں بھی خواتین کو زندگی کے ہر شعبے میں مناسب نمائندگی دینے کی ضمانت دی گئی ہے۔ ملکی قوانین میں بھی خواتین کو تعلیم اور روزگار کے مواقع فراہم کرنے کی ضمانت موجود ہے۔ خیبر پختونخوا حکومت نے خواتین کو معاشرے میں ان کا جائز مقام دلانے کیلئے ایک کمیشن قائم کیا ہے۔ ڈاکٹر رفعت سردار کی قیادت میں کمیشن نے گذشتہ چند سالوں کے اندر حقوق نسواں کے حوالے سے جو مہم شروع کررکھی ہے اس کی بدولت خواتین کے حقوق کے حوالے سے رائے عامہ ہموار ہورہی ہے۔ گذشتہ ماہ اسلام آباد میں پہلی خواتین کانفرنس کا انعقاد کیاگیا جس میں ملک بھر سے تعلیمی اداروں، ملکی و غیر ملکی این جی اوز اور سرکاری محکموں کے سربراہوں کے علاوہ میڈیا کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔ پہلی کامیاب خواتین کانفرنس کے بعد ویمن کمیشن نے تین روزہ تربیتی ورکشا پ کا اہتمام کیا۔ جس میں ملکی آئین کی مختلف شقوں، مروجہ قوانین اور بین الاقوامی معاہدوں میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے شرکاء کو آگاہ کیا گیا۔ پاکستان کی بائیس کروڑ آبادی میں خواتین کی تعداد 51فیصد اور مردوں کی تعداد49فیصد ہے۔ لیکن ملک کی اکثریتی آبادی کو خاطر خواہ مواقع میسر نہیں جس کی وجہ سے ہماری قومی ترقی کی رفتار انتہائی سست ہے۔ ہم نے قومی اسمبلی، سینٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین کے لئے ایک تہائی نشستیں مختص کی ہیں سوا تین سو ارکان کے ایوان میں صرف پانچ چھ خواتین کو جنرل نشستوں پر الیکشن لڑنے کی اجازت ہوتی ہے۔ خواتین کو جس شعبے میں اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع ملا۔ انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ ملالہ یوسف زئی کا نوبل انعام جیتنا، ثمینہ بیک کا ماؤنٹ ایورسٹ اور کے ٹو کو سر کرنا، ڈاکٹر زبیدہ سیرنگ کی کتاب کو بین الاقوامی شہرت ملنا، عرفہ کریم کا کم عمر ترین سافٹ ویئر ایکسپرٹ کا اعزاز حاصل کرنا، محترمہ بے نظیر بھٹو کا عالم اسلام کی پہلی منتخب وزیراعظم بننا، فائٹر پائلٹ اور ملٹری اکیڈمی کی سخت تربیت مکمل کرکے عسکری میدان میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑنا ہماری خواتین کی صلاحیتوں کا ثبوت ہے۔ میٹرک اور انٹر بورڈ کے ملک بھر کے امتحانات میں طالبات ہی تمام اہم پوزیشنیں حاصل کرتی ہیں۔ سی ایس ایس کے امتحان میں کامیاب ہونے والی طالبات نے خود کو مردوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر منتظم ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ کاروبار، بینکنگ اور صنعت کے شعبوں میں بھی ہماری خواتین نے اپنی اہلیت ثابت کردی ہے۔ اگر معاشرتی رویوں میں تبدیلی آگئی اور خواتین کو زندگی کے ہر شعبے میں اپنی اہلیت ثابت کرنے کے مواقع مل جائیں تو پاکستان کو ترقی کرنے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔