قانون ساز ایوان بالا (سینیٹ) نے ’پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی)‘ کی بحالی کے لئے ترمیمی بل کی منظوری دی۔ تین اکتوبر دوہزاربائیس کے روز ہوئی اِس غیرمعمولی پیشرفت کے بعد ’پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل ترمیمی بل 2022ء‘ کے نتیجے میں ’پاکستان میڈیکل کمیشن (پی ایم سی) باضابطہ طور پر ختم ہو جائے گی‘ جسے تحریک انصاف حکومت نے تخلیق کیا تھا اور ’پی ایم سی‘ کے ذریعے اصلاحات بھی کی گئیں تھیں جن میں ’آن لائن وسائل‘ سے نسبتاً بہتر استفادہ اور داخلہ پالیسی میں شفافیت کے علاوہ نجی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجوں کے امور و کارکردگی کا ’زیادہ سختی‘ سے احتساب شامل تھا۔ پی ایم ڈی سی سے پی ایم سی اور دوبارہ ’پی ایم ڈی سی‘ کی تشکیل میں سب سے زیادہ حیرت انگیز بات اور اصلاحات کی ناکامی کی بنیادی وجہ یہ رہی کہ اصلاحات کے نفاذ کے لئے جن کو بااختیار بنایا گیا تھا اُنہوں نے نجی تعلیمی اداروں کے مفادات کا ہر ممکن تحفظ کیا اور یوں ’پی ایم ڈی سی‘ بحالی کے لئے جدوجہد جہاں ’پی ایم سی‘ کی خراب کارکردگی کی صورت سامنے آئی وہیں۔ ذہن نشین رہے کہ ’پی ایم سی‘ کی تخلیق سال 2020ء میں ’پی ایم ڈی سی‘ تحلیل کرنے کے بعد ہوئی اور شروع دن سے اِس قانون سازی کو متنازعہ قرار دیا گیا حالانکہ یہ طب کی تعلیم کے عالمی معیارات کو لاگو کرنے اور ایک زیادہ جامع نظام لاگو کرنے کی انتہائی سنجیدہ کوشش تھی اور صدر مملکت عارف علوی چونکہ خود بھی (بی ڈی ایس) ڈاکٹر ہیں اور وہ ملک میں ڈاکٹروں کی نمائندہ تنظیم ’پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے)‘ کے رکن اور انتظامی عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں‘ اِس لئے اُن کے دستخطوں سے آئین لاگو ہوا۔ اب ایک ترمیمی بل کے تحت وزیراعظم کے نامزد کردہ سول سوسائٹی کے تین ارکان‘ فلاحی سرگرمیوں سے وابستہ ایک شخص‘ ایک قانونی پیشہ ور‘ ایک چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ اور پانچ طبی پیشہ ور افراد پر مشتمل ایک نیا ادارہ (پی ایم ڈی سی) تشکیل دیا جائے گا۔ اب میڈیکل اور ڈینٹل کالجز کا داخلہ ٹیسٹ صوبائی سطح پر ہوں گے جبکہ ڈاکٹروں کی اہلیت جانچنے کے لئے ’قومی لائسنسنگ امتحان (NLE)‘ بھی ختم کر دیا گیا۔ مزید برآں بیرون ملک سے طب کی تعلیم حاصل کرنے والے پاکستانی (گریجویٹ طلبہ) کے لئے خصوصی امتحان جسے ’این آر اِی‘ کہا جاتا ہے اب سال میں ایک مرتبہ نہیں بلکہ 2 مرتبہ منعقد ہوا کرے گا۔میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں میں داخلے کے امیدواروں نے مطالبہ کیا ہے کہ ’ایم بی بی ایس‘ اور ’بی ڈی ایس‘ نامی تعلیمی کورسز کے اندراج سے متعلق داخلہ پالیسی تبدیل کی جائے۔ داخلہ کے خواہشمند طلبہ جنہوں نے سال دوہزاربیس اور دوہزاربائیس میں ’پری میڈیکل گروپ‘ کے تحت انٹرمیڈیٹ امتحان پاس کر رکھا ہے کہا کہ ”مجموعی نمبروں کے لئے صرف انتخابی مضامین پر غور کیا جانا چاہئے۔“ درخواست گزار طالبہ علیشبا خان کی سوشل میڈیا اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے تبلیغات کے مطابق کہ سال دوہزاراکیس میں ملک بھر کے انٹرمیڈیٹ اور سیکنڈری تعلیمی بورڈز نے ’کورونا وبا پابندیوں‘ کی وجہ سے امتحانات منعقد کئے بغیر بھی طلبہ کو لازمی مضامین میں اضافی نمبر دیئے۔ یہ بندوبست اُن طلبہ کے ساتھ ناانصافی ہے جنہوں نے دوہزاربیس اور دوہزاربائیس میں امتحان پاس کیا ہے۔ میڈیکل و ڈینٹل میں داخلے کے خواہشمندوں کا مؤقف ہے کہ ’پی ایم سی‘ نے ’ایم بی بی ایس‘ اُور ’بی ڈی ایس‘ برائے سال 2022-23ء کے لئے جو ’داخلہ پالیسی‘ کا اعلان کیا ہے جس میں ایف ایس سی (پری میڈیکل) یا اس کے مساوی کورسز میں طالب علم کے حاصل کردہ کل نمبر مجموعی نمبروں کا حصہ ہوں گے۔ امیدواروں کو اِس مجموعی نمبروں کے شمار پر مبنی طریقے پر اعتراض ہے اور اِسے ’غیر منصفانہ‘ قرار دیتے ہیں۔ ایک اور درخواست گزار عروہ وحید کا مؤقف ہے کہ دوہزاراکیس میں ایف ایس سی کے طلبہ صرف تین انتخابی مضامین کے امتحان میں شامل ہوئے جن میں فزکس‘ کیمسٹری اور بیالوجی کے مضامین شامل ہیں اور انہیں اسلامیات‘ انگلش‘ اُردو اور پاکستان سٹڈیز میں اضافی متناسب نمبر دیئے گئے اور یہ طلبہ تیرہ نومبر سے متوقع ایم ڈی کیٹ امتحانات کا حصہ ہوں گے۔ سال دوہزاربیس میں ایف ایس سی کا امتحان پاس کرنے والے طلبہ نے میڈیکل و ڈینٹل داخلہ پالیسی پر نظرثانی کا مطالبہ کیا ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ طب کے تعلیم کے حوالے سے ہمارے ہاں موثر پالیسیوں کی ضرورت ہر دور میں محسوس کی گئی ہے تاہم اس طرف خاطر خواہ توجہ نہ دینے کے باعث یہاں پر مسائل میں وقت گزرنے کیساتھ اضافہ ہوا ہے۔