یوکرین تباہی کا ذمہ دار، روس یا امریکہ

ایک وقت ایسا بھی آیا کہ نیٹو کے حوالے سے یہ باتیں ہوتی رہیں کہ آج یا کل اس تنظیم کا خاتمہ یقینی ہے۔ سابقہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ تو خاص طور پر نیٹو کو امریکہ پربوجھ سمجھتا رہا۔تاہم اس وقت ایک بار پھر اس تنظیم کی اہمیت اور افادیت کھل کر سامنے آئی ہے اور روس کے یوکرین پر حملے اور کچھ علاقوں پرقبضے کے بعد یورپ میں جو ممالک اس تنظیم سے فاصلہ رکھنے کی پالیسی پر عمل پیراتھے وہ بھی اب اس کا حصہ بننے کی طرف مائل ہیں۔ ایک طرح سے روس کے خطرے نے نیٹو کو نئی زندگی دی ہے۔حال ہی میں نیٹو نے روس کو اتحادی طاقتوں کے لیے  براہ راست خطرہ قرار دیتے ہوئے کییف کو فوجی سازوسامان فراہم کرنے کا سلسلہ جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے  اور اس نے  روس کی طاقتور فوج کے خلاف کامیاب مزاحمت پر یوکرینی فوجیوں کی دلیری کو سراہا  ہے۔ان حالات میں امریکہ نے یوکرین کے لیے اضافی 725 ملین ڈالر کی فوجی امداد کا اعلان کیا ہے۔ یہ امداد ایک ایسے وقت میں منظور کی گئی ہے، جب روسی افواج کی طرف سے یوکرین میں میزائل حملوں کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ ان راکٹ حملوں سے بچنے کی خاطر یوکرین کی کوشش ہے کہ اسے ایک مضبوط میزائل دفاعی نظام فراہم کیا جائے۔یوکرین جنگ شروع ہونے کے بعد سے واشنگٹن حکومت یوکرین کو 18.3 بلین ڈالر کی فوجی مدد دینے کا اعلان کر چکی ہے۔ مغربی دفاعی اتحاد نے خبردار کر رکھا ہے کہ یوکرین میں حملے کے نتیجے میں روس دراصل پورے مغربی اتحاد کے لیے ایک براہ راست خطرہ بن چکا ہے۔اس تناظر میں امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین روس کی طاقتور فوج کا مقابلہ کرنے کی خاطر یک جا ہیں اور وہ یوکرینی فوجیوں کو جدید عسکری سازوسامان فراہم کرنے کے  ساتھ ساتھ انہیں تربیت بھی فراہم کر رہے ہیں۔ نیٹو کا کہنا ہے کہ روسی جارحیت کی وجہ سے شروع ہونے والی جنگ طویل ثابت ہو گی۔کریمیا کو روس کے مرکزی علاقے سے ملانے والے  پل پر ہوئے دھماکے کو یوکرینی دہشت گردانہ کاروائی قرار دیتے ہوئے روسی صدر نے یوکرین بھر میں میزائل حملے شروع کر رکھے ہیں۔ اس دوران کییف سمیت دیگر شہری علاقوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔امریکی وزریر خارجہ انٹونی بلنکن نے دعویٰ کیا ہے ایسے شواہد ملے ہیں، جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ روسی افواج یوکرین جنگ میں اپنی کاروائیوں کے دوران جنگی قوانین کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوئی ہیں‘دریں اثنا روسی فورسز نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ دونٹسک ریجن کے صنعتی شہر باخموٹ کے قریب پہنچ گئی ہیں‘ یوکرینی فوج کے مطابق اس محاذ پر روسی عسکری جارحیت کا بھرپور جواب دیا جا رہا ہے‘دوسری طرف روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا ہے کہ یوکرین جنگ کے دوران وہ درست اقدامات کر رہے ہیں اور وہ اپنی عسکری حکمت عملی میں کامیاب رہے ہیں۔پیوٹن  کا کہنا ہے کہ اب یوکرین میں مزید بڑے پیمانے پر حملے نہیں کیے جائینگے کیونکہ وہ اپنے اس ہمسایہ ملک کو تباہ نہیں کرنا چاہتے‘ اس وقت جو صورتحال یوکرین کے حوالے سے سامنے آرہی ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ امریکہ نے یوکرین کو چارے کے طور پر استعمال کیااور روس کے ہاتھوں یوکرین کو جس نقصان کا سامنا کرنا پڑا اس کی تلافی شاید ہی امریکی امداد سے ممکن ہوسکے۔امریکہ یہاں پر جنگ کو زیادہ سے زیادہ طول دینا چاہتا ہے جس کاسراسر نقصان یوکرین کو ہوگا۔