خیبرپختونخوا میں قومی اسمبلی کی تین نشستوں کے لئے سولہ اکتوبر دوہزاربائیس کے روز ہوئے ضمنی انتخابات کے دوران بالعموم رائے دہی کی شرح (ووٹرز ٹرن آؤٹ) کم رہا اور جب ہم پشاور کی بات کرتے ہیں تو اندرون شہر کے بیشتر حصوں پر مشتمل ’این اے 31 (پشاور فائیو)‘ کے پولنگ اسٹیشنوں پر قطاریں‘ دھکم پیل‘ تکرار اور ہجوم (رش) دیکھنے میں نہیں آیا جو کبھی پشاور میں انتخابات کی خاص بات ہوا کرتی تھی۔ ’این اے اکتیس پشاور فائیو‘ صوبائی دارالحکومت کے شہری علاقوں پر مشتمل حلقہئ انتخاب ہونے کے باوجود اِس کے زیادہ تر پولنگ سٹیشن سُنسان رہے۔ اِکا دُکا ووٹروں کی آمدورفت کی وجہ سے صبح آٹھ سے شام پانچ بجے تک باسہولت ووٹنگ دیکھنے میں آئی۔پاکستان میں سیاست اختلافات سے شروع ہو کر اختلافات پر ختم ہوتی ہے یعنی یہاں سیاست اختلافات ختم کرنے کے لئے نہیں کی جاتی جو کہ سیاست کا لغوی و اصطلاحی مفہوم ہے بلکہ سیاست میں ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالا جاتا ہے اور یہ کام بذریعہ ’سوشل میڈیا‘ جس منظم و بڑے انداز میں آج ہو رہا ہے شاید ہی کبھی دیکھنے میں آیا ہو۔ پشاور شہر سے قومی اسمبلی کی نشست کے لئے سب سے زیادہ پرہجوم پولنگ مراکز (مضافات میں) ’وزیرباغ‘ اور اندرون شہر ’بیگم شہاب الدین ہائر سیکنڈری سکول (پرانا کریم پورہ) ہوتے ہیں جہاں ایک وقت تک خواتین کی قطاریں اور جھگڑے یہاں کی پولنگ کے ساتھ لازم و ملزوم ہوتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اِس مرتبہ بھی (سولہ اکتوبر کے روز) ذرائع ابلاغ کے نمائندے پولنگ شروع ہونے سے قبل ہی مذکورہ دونوں پولنگ مراکز پر پہنچ گئے تھے اور پولنگ کے اوقات کے اختتام تک‘ سارا دن انتظار کرنے کے باوجود بھی کوئی خاص خبر ہاتھ نہ لگی اور نہ ہی خواتین ووٹروں کی قطاریں دیکھنے میں آئیں جو
کبھی عام سی بات ہوا کرتی تھی۔ ذہن نشین رہے کہ ’این اے 31‘ پر رجسٹرڈ 2 لاکھ 10 ہزار 891 رجسٹرڈ خواتین ووٹرز میں سے صرف 22 ہزار 50 خواتین نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا جو کل رجسٹرڈ ووٹرز کا 10.45 فیصد بنتا ہے اور اگر آدھا فیصد بھی کم خواتین ووٹرز آتیں تو پشاور میں ضمنی انتخابات کا انعقاد دوبارہ کیا جاتا کیونکہ الیکشن کمیشن قانون کے مطابق کسی حلقے میں خواتین کی 10فیصد سے کم پولنگ کی صورت انتخاب کا انعقاد دوبارہ کیا جاتا ہے۔ حیران کن صورتحال تھی کہ وزیرباغ کے ایک پولنگ مرکز کہ جہاں خواتین کے رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 1908 تھی لیکن وہاں پولنگ کے اختتام سے دو گھنٹے پہلے تک صرف 94 ووٹ ہی ڈالے گئے تھے اور ایسا ہونے کی ایک وجہ کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈز کے کوائف اور تصاویر پر مبنی ووٹرز لسٹیں بھی تھیں‘جن کی وجہ سے اب کوئی ایک خاتون کسی دوسری خاتون کا ووٹ نہیں ڈال سکتی۔ اِس صورتحال سے اِس نظریئے کو بھی تقویت ملی ہے کہ اگر الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں (EVMs) کے ذریعے پولنگ کروائی جائے تو انتخابات کا انعقاد زیادہ شفاف اور پرامن ہو سکتا ہے۔
پشاور کے لئے ’سولہ اکتوبر‘ عمومی ہفتہ وار تعطیل کا دن تھا‘ جس کی وجہ سے سڑکیں سنسان رہیں اور ضمنی انتخاب کا ماحول ایسا سرد تھا کہ قابل ذکر
ناخوشگوار واقعہ رپورٹ نہیں ہوا اور ووٹر خاموشی سے آتے جاتے رہے بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ ملتے‘ کھاتے پیتے اور ہنستے گاتے دیکھے گئے۔ شاید پشاور نے سمجھ لیا ہے کہ اصل چیز سیاست نہیں بلکہ بھائی چارہ ہے اور سولہ اکتوبر کے روز‘ این اے 31 پر کسی سیاسی جماعت کی ہار جیت نہیں بلکہ پشاور میں بھائی چارے کا بول بالا ہوا ہے۔الیکشن کمیشن کے ’رزلٹ مینجیمنٹ سسٹم (RMS)‘ کے مطابق پشاور میں کل 265 (مردوں کے لئے 146 اور خواتین کے لئے 117 اور 2 مشترکہ) پولنگ سٹیشنز بنائے گئے‘ جہاں کے 4 لاکھ 73 ہزار سے زیادہ رجسٹرڈ ووٹروں میں سے ”20.28 فیصد“ فیصد نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا جبکہ خیبرپختونخوا کے 2 دیگر حلقوں کی بھی صورتحال زیادہ مختلف نہیں رہی۔ چارسدہ میں پولنگ کی شرح 29.02 فیصد اور مردان میں 32.94 فیصد رہی یعنی پشاور میں ہر 100 ووٹرز میں سے صرف 20 ووٹرز نے اپنی رائے دہی کی ذمہ داری ادا کرنے کو ضروری سمجھا‘ آخر ایسا کیوں ہے کہ جمہوریت کی بنیاد قرار دیئے جانے والے عام انتخابات ہی سے عوام کی اکثریت فاصلہ کئے بیٹھی ہے؟ اِس بارے میں ضرور غور ہونا چاہئے کہ اہل پشاور کی وہ خاموش اکثریت اِس پورے جمہوری نظام سے کیا چاہتی ہے اور آخر اہل پشاور کی وہ کونسی توقعات ہیں جو پوری نہیں ہو سکی ہیں اور یہ سیاست و انتخابات سے کنارہ کش ہو کر مطمئن دکھائی دے رہے ہیں؟ شاید اِس کی بڑی وجہ مہنگائی و بیروزگاری سے پیدا ہونے والے معاشی مسائل ہوں‘ ہر کسی کو اپنے روزگار کی پڑی ہوئی ہے وگرنہ کوئی وجہ نہیں تھی کہ آبادی کے لحاظ سے خیبرپختونخوا کے سب سے بڑے ضلع پشاور میں شرح پولنگ دیگر دو اضلاع (جہاں کی اکثریت دیہی علاقوں میں آباد ہے) کے انتخابی حلقوں کے مقابلے کم ہوتی!