بود و باش اور امراض

طبی ماہرین کا اتفاق ہے کہ ”پاکستان میں چھاتی کا سرطان (کینسر) اِس وجہ سے پھیل رہا ہے کیونکہ اِس بارے میں خواتین زیادہ بات چیت کرنا پسند نہیں کرتیں اور ایک طرح کی جھجک پائی جاتی ہے‘ جو ’جان لیوا‘ ہے۔ خواتین چاہے وہ شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ‘ اِنہیں چاہئے کہ ہر چند ماہ بعد (سال میں کم سے کم ایک مرتبہ) کسی قریبی لیڈی ڈاکٹر یا لیڈی ہیلتھ ورکر سے اپنا جسمانی معائنہ کروائیں کیونکہ کیمیائی مادوں سے بھرپور خوراکیں استعمال کرنے کی وجہ سے انسانی جسم میں غیرمعمولی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور ماضی میں اِس قسم کی تبدیلیاں یوں ظاہر نہیں ہوتی تھیں۔ طبی ماہرین کے مطابق چالیس سال سے زیادہ عمر کی خواتین کو سال میں کم سے کم ایک بار میموگرافی (چھاتی کے سرطان کو شناخت کرنے والا ٹیسٹ) کروانا چاہئے۔ جن شادی شدہ یا غیرشادی خواتین کی عمریں چالیس سے کم ہیں اگر وہ بھی اپنی چھاتی کے کسی حصے میں درد‘ تکلیف یا سختی محسوس کریں تو فوری طور پر طبی معائنہ کروائیں۔

 لمحہئ فکریہ ہے کہ دنیا کے مقابلے پاکستان میں بڑی تعداد میں غیرشادی شدہ اور نوجوان خواتین بھی چھاتی کے امراض کا شکار ہو رہی ہیں۔ تمباکو نوشی شراب نوشی چھالیہ شیشہ نسوار گٹکے پان وغیرہ کا استعمال‘ فضائی آلودگی‘ خوردونوش کی اشیا میں ملاوٹ‘ جسمانی وزن کی زیادتی اور ورزش نہ کرنے جیسے اسباب چھاتی کے سرطان کا سبب بن سکتے ہیں۔ کچھ کیسز میں تابکاری‘ آلودگی بچوں کو دودھ نہ پلانا اور موروثیت یعنی خاندان کے دیگر افراد کو لاحق یہ بیماری بھی چھاتی کے سرطان کی وجوہات میں شامل ہو سکتی ہے۔ مرغی اور دودھ کیلئے جن جانوروں کو ہارمونز کے انجیکشن دیئے جاتے ہیں اُن کا گوشت اور دودھ انسانوں کیلئے مضر صحت ہے۔ طبی ماہرین کی جانب سے چھاتی و دیگر قسم کے سرطانوں اور دیگر بیماریوں سے بچنے کے لئے طرز زندگی میں تبدیلی کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ سہل پسندی موٹاپے کا باعث بنتی ہے اِس لئے تھوڑی سہی لیکن روزانہ ورزش ضروری ہے۔ 

ہارمونل ایمبیلنس‘ بچوں کی پیدائش تیس سال کے بعد ہونا‘ بریسٹ ٹشوز کا ڈینس ہونا‘ اس کے ساتھ مرغن غذائیں‘ کیمیائی مادوں سے بھرپور مشروبات‘ شراب نوشی‘ تمباکو نوشی ہارمونز ٹریٹمنٹ سموکنگ اور کاسمیٹک ایمپلانٹس بھی کینسر کا باعث بنتی ہیں۔“ لب لباب یہ ہے کہ خواتین جب تک گھر کے کام کاج اپنے ہاتھوں سے یعنی خود کرتی رہیں گی اور گھر پر بنے ہوئے کھانے پینے کو ترجیح دیں گی اُس وقت تک وہ اور اُن کا کنبہ سرطان و دیگر بیماریوں سے محفوظ رہے گا۔’چھاتی کے سرطان‘ کی صورتحال‘ اِس بیماری کے سربستہ راز اور اِس کے علاج معالجے اور بچاؤ کیلئے اقدامات کے حوالے سے پشاور میں منعقدہ نشست سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے خواتین پر زور دیا کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر خود اپنا جسمانی معائنہ کریں تاکہ کسی مرض کی ابتدائی علامات اور اِس کے حملہ آور ہونے کے ابتدائی مرحلے ہی میں اِس کی کھوج لگائی جا سکے اور جب کسی مرض کی تشخیص اُس کی ابتدائی حالت میں کی جاتی ہے تو اُس کا مؤثر علاج زیادہ آسانی سے ممکن ہو جاتا ہے لیکن جب مرض کی ابتدائی علامات کو نظرانداز کیا جاتا ہے اور مرض کی شدت کا انتظار کیا جاتا ہے تو اِس قسم کا رویہ بہت ساری صورتوں میں جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔

 حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کے شعبہ میڈیکل آنکولوجی کے سربراہ پروفیسر عابد جمیل نے ”چھاتی کے سرطان سے متعلق آگاہی کے مہینے“ کے موقع پر منعقدہ مذکورہ نشست کے شرکا ء کو بتایا کہ ”چھاتی کے کینسر کے ایک ہزار سے زائد مریض جن کا علاج کیا گیا ہے اُن میں سے چالیس فیصد کی عمریں پینتالیس سال سے کم ہیں۔“ قبل ازیں تصور یہ تھا کہ چھاتی کا کینسر چالیس سال سے زائد عمر کی خواتین کو لاحق ہوتا ہے اور یہ تصور بھی غلط ثابت ہوا ہے کہ چھاتی کا کینسر صرف شادی شدہ خواتین کا مسئلہ ہے۔ طبی ماہرین کے لئے نوجوان خواتین میں چھاتی کے کینسر کے بڑھتے ہوئے کیسز تشویشناک ہیں۔ سرطان کسی بھی قسم کا ہو اِس کا علاج مہنگا اور انتہائی تکلیف دہ ہوتاہے اور یہی وجہ ہے کہ90 فیصد سے زائد خاندان ایسے ہوتے ہیں جو اپنی مریضہ کا علاج کروانے کی مالی سکت نہیں رکھتے اور ایسے مستحق مریضوں کو ’حیات آباد میڈیکل کمپلیکس‘ نامی ہسپتال میں مفت و مکمل علاج  فراہم کیا جا رہا ہے۔ کینسر کی سبھی اقسام اپنی ذات میں پیچیدہ ہوتی ہیں اور اِن پر قابو پانے کے لئے متعلقہ طبی ماہرین کو آپس میں مشاورت کرنا پڑتی ہے۔ موجودہ صورتحال میں چونکہ کینسر کے ماہر ڈاکٹر کم ہیں اور اِن کے مصروفیات کی وجہ سے باہمی رابطے اور مشاورت خاطرخواہ بڑے پیمانے پر نہیں ہو رہی اِس کا حل ٹیکنالوجی کا استعمال ہے جس کے ذریعے طبی معائنے اور معاونت کو نئی وسعتوں سے جامع بنایا جا سکتا ہے۔