بعض اوقات ایک چھوٹے سے لفظ میں بہت کچھ پوشیدہ ہوتاہے علامہ کا وہ شعر یاد کیجئے ”ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی“۔ ہر دور میں مقبولیت کی بلندی پر رہنے والے ایسے اشعار کے ساتھ اہل اْردو کی علت یہ ہے کہ وہ انہیں سنتے ہیں، ان پر سر دھنتے ہیں مگر ان کے مفاہیم پر غور نہیں کرتے۔ بہتوں کو تو مقبول تر مصرعہ کا دوسرا مصرعہ بھی یاد نہیں رہتا جو کم مقبول ہوتا ہے۔ مذکورہ شعر میں علامہ نے دو باتوں (نمی اور زرخیزی) کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس مٹی میں زرخیزی (صلاحیت) بھرپور ہے، ضرورت ہے اس کے نم ہونے کی۔ جب جب بھی اسے نمی میسر آتی ہے یہ مٹی اپنی زرخیزی کے جوہر دکھانے لگتی ہے۔ مصرعہ کا اتنا مفہوم تو اْردو کا ادنیٰ طالب علم بھی جانتا ہے مگر اس پر غور کرنے والا ”نم“ پر ٹھہر جائیگا کہ ”نم“ کیا ہے۔ ”نم“کوئی مشکل لفظ نہیں ہے۔ اس کا معنی ہے نمی، رطوبت، تری، گیلاپن، وغیرہ۔ یہ لغوی معنی ہیں۔ مرادی معنی ہونگے وسائل، مواقع، حوصلہ افزائی، سرپرستی، پشت پناہی، وغیرہ۔ زرخیزی اور نمی لازم و ملزوم ہیں۔ علامہ نے دوٹوک انداز میں زرخیزی کو سند عطا کردی کہ یہ تو موجود ہے، ضرورت صرف نمی کی ہے۔ اس قول کے قول فیصل ہونے کا ثبوت اس بات سے ملتا ہے کہ قوم کی زرخیز مٹی کو جہاں جہاں نمی میسر آتی ہے، وہاں وہاں اچھی فصل آتی ہے، یہ مشاہدہ عام ہے۔ چونکہ دْنیا دارالاسباب ہے اس لئے زرخیزی عطا کرکے قدرت نے نم یا نمی کیلئے بندوں کو مختار کیا کہ اس کے حصول یا فراہمی کا انحصار آپ کی کدوکاوش پر ہے۔ شکر ہے کہ ہمارے معاشرہ میں کدوکاوش کے نام پر سناٹا نہیں ہے اور اس کے مظاہر ایسی جگہوں پر بھی دیکھنے کو ملتے ہیں جن سے ہماری واقفیت نہیں ہے (مثلاً قصبوں اور دیہاتوں کے تعلیمی ادارے)۔ یہی مظاہر اور بھی جگہوں پر نظر آسکتے ہیں چنانچہ جہاں تعلیمی ادارے موجود نہیں ہیں، وہاں چھوٹی بڑی ہر سطح پر اداروں کے قیام کی فکر کی جاسکتی ہے، مگر، ادارے قائم کرنے کیلئے کثیر سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے اور ہر تنظیم یا دردمند افراد کا گروہ اس کا متحمل نہیں ہوتا اس لئے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے لوگ کیا کریں؟ یاد رہے کہ نم یا نمی کی مقدار طے شدہ نہیں ہے۔ دو بوند بھی پانی ہے، ایک لٹیا بھر پانی بھی پانی ہے، آبجو بھی پانی سے بھری ہوتی ہے، ندی اور تالاب کاشمار بھی ذخائر آب میں ہوتا ہے۔ دردمند دل رکھنے والوں کو نمی کی شرط پوری کرنی چاہئے، مقدار کی نہیں۔ اس لئے اپنے آس پاس کی دْنیا میں جہاں جہاں ضرورت ہو اور جس کسی حد تک یہ شرط پوری کی جاسکتی ہو، اسے ضرور پورا کرنا چاہئے۔ یہ سب بیان کرنے کامقصد یہ ہے کہ اگر صرف تعلیمی منظرنامے کا جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ کشت ویراں میں نمی کی ضرورت ہر جگہ اور ہر سطح پر ہے۔ یہ ضرورت صرف وسائل کی نہیں، رہنمائی کی بھی ہے، حوصلہ افزائی کی بھی ہے اور خدشات یا غلط فہمیوں کو دور کرنے کی بھی ہے۔ کیا یہ کشت ویراں جیسی صورت حال نہیں ہے کہ ایک خاندان اپنی بچیوں کو اس لئے اعلیٰ تعلیم کی اجازت نہیں دیتا کہ اس کے خیال میں انہیں پڑھ لکھ کر کوئی افسر تھوڑے ہی بننا ہے اور وہ افسر بنیں بھی کیوں، اْنہیں تو اْمور خانہ داری سے وابستہ ہونا ہے، انہوں نے ابتدائی جماعتوں کی تعلیم حاصل کرلی، اتنا کافی ہے۔ یہ ذہنیت کا مسئلہ ہے۔ اس کیلئے اگر دس افراد اپنے آس پاس کی پانچ پانچ بچیوں کے والدین کو سمجھا بجھا کر نیز اْن کی غلط فہمی کو دور کروا کر ان کی اعلیٰ تعلیم کی راہ ہموار کردیں تو وہ ایک سال میں سینکڑوں بچیوں کے مستقبل کو تابناک بنا سکیں گے۔ یہ ہے کشت ویراں کو اپنے حصے کی نمی فراہم کرنا۔ آگے بڑھنے سے پہلے یہ بھی عرض کردوں تو بے محل نہ ہوگا کہ ہمارے معاشرہ میں تعلیم کے معاملات میں لڑکوں سے زیادہ لڑکیاں سنجیدہ ہیں مگر لڑکیوں ہی کی اعلیٰ تعلیم پر قدغن لگتی ہے۔ بہ الفاظ دگر لڑکے پڑھتے نہیں ہیں اور لڑکیوں کو پڑھنے نہیں دیا جاتا۔ یہ مسئلہ اب بھی حل نہ ہوا تو کب ہوگا؟ اپنے حصے کی نمی فراہم کرنے کی دوسری مثال غریب طلبہ کی تعلیمی کفالت سے دی جاسکتی ہے۔ ادارہ قائم کرنا اچھی بات ہے مگر ہر شخص ادارہ قائم نہیں کرسکتا، البتہ ہر شخص کسی غریب کی فیس ادا کرنے یا تعلیمی اسباب فراہم کرنے پر قادر ہوتا ہے۔ اْسے اْتنا تو لازماً کر گزرنا چاہئے۔ بہت سے لوگ تعلیمی کفالت کے خواہشمند ہوتے ہیں مگر نہیں جانتے کہ کسے دیا جائے۔ اس کیلئے اگر وہ تھوڑی سی زحمت کرکے کسی قریبی سکول کے ذمہ داروں سے ملاقات کرلیں تو یہ مشکل فی الفور آسان ہوسکتی ہے۔ان حالات میں بھی کئی اسکول ایسے ہیں جہاں کے اساتذہ نے ایک چھوٹا موٹا فنڈ قائم کررکھا ہے جس کے ذریعہ وہ اپنے اسکول کے مستحق طلبہ کی تعلیمی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں۔چونکہ یہ کارِ خیر کسی نام و نمود کے بغیر انجام پاتا ہے اس لئے کوئی بھی نہیں جان پاتا کہ اساتذۂ کرام، جن پر اکثر لعن طعن ہوتی ہے، ایسا جذبہ بھی رکھتے ہیں۔ اپنے حصے کی نمی فراہم کرنے کا اپنا اپنا انداز اور طریقہ ہوسکتا ہے۔ ایک بہت آسان طریقہ یہ ہے کہ سکولوں کالجوں میں پڑھنے والے طلبہ سے کبھی کبھار ملاقات کرلی جائے، اْن کے تعلیمی مشاغل کے تعلق سے دوچار سوالات کرلئے جائیں اور اْن کی پیش رفتوں پر شاباشی دی جائے۔ کون نہیں جانتا کہ ہمارے معاشرہ کی امتیازی خوبی تھی چھوٹوں سے شفقت۔ اس شفقت کے اظہار کے کئی طریقے تھے۔ بزرگ اْنہیں شاباش کہتے، جیتے رہو کہتے، پھلو پھولو کہتے اور دراز ی عمر سے لے کر بلندی اقبال تک مختلف فقروں اور جملوں کے ذریعہ اْن میں اعتماد پیدا کرتے نیز اْن کا حوصلہ بڑھاتے۔ موجودہ معاشرے کے بزرگوں کی اکثریت نے اسلاف کی یہ روش ترک کردی۔ مَیں نے تو برسوں سے کسی کو شاباش کہتے نہیں سنا جبکہ اس لفظ ”شاباش“ میں بلا کی قوت ہوتی تھی۔ یہ قوت اَب بھی موجود ہے بشرطیکہ اس لفظ کو زندہ کیا جائے۔ کیا ہم اتنے مصروف، اتنے لاتعلق اور جذبہ شفقت سے اس حد تک عاری ہوچکے ہیں کہ شاباش کہنا اور دْعا دینا تک ترک کردیا؟ کسی کی حوصلہ افز ائی کرنا ایک بہت بڑی نیکی ہے اس کا اندازہ ان لوگوں کو ہی ہو سکتا ہے جنہیں کسی کی شاباش نے زندگی میں ترقی کا راستہ دکھایا ہوتا ہے۔