ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز

انٹرنیشنل ٹریڈ ایسوسی ایشن کی جانب سے پاکستان کی معیشت کو ”نقد لین دین پر مبنی‘ اور ایک ’غیر رسمی معیشت‘ قرار دیا گیا ہے کیونکہ ہمارے ہاں تجارت سے لیکر خریدوفروخت تک زیادہ تر کاروباری لین دین میں نقدی کا تبادلہ کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی معیشت پر ”ای کامرس“ کے نظریات لاگو نہیں ہوتے یا اِن نظریات کا اطلاق ممکن نہیں ہوتا۔ نقدی میں لین دین اور معیشت کے غیررسمی ہونے کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اِس سے اجتماعی فائدہ نہیں ہوتا اور معیشت ایک خاص دائرے کے اندر محدود رہتی ہے۔ پاکستان میں ”ای کامرس“ وجود رکھتی ہے لیکن اِسے پھلنے پھولنے اور پھیلنے کا خاطرخواہ موقع (ماحول) فراہم نہیں کیا جا رہا۔ سال دوہزار اکیس میں پاکستانی مارکیٹ میں قریب چھ (5.9) ارب ڈالر کی دستاویزی لین دین ہوئی۔ سال دوہزاربائیس کے لئے اِس معاشی لین دین کا حجم ساڑھے سات فیصد سے زائد (7.6) ارب ڈالر متوقع ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ قومی آمدنی میں کچھ نہ کچھ اضافہ ہو رہا ہے۔ 

ایک ایسی صورتحال جب دنیا کا معاشی نظام کورونا وبا کی وجہ سے مفلوج تھا لیکن اُس وقت بھی پاکستان کی معیشت چل رہی تھی اور ایسا صرف اِس وجہ سے ہوا کیونکہ ہمارے ہاں ’ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز‘ کا استعمال کرنے میں بخل یا گریز سے کام نہیں لیا گیا چونکہ پاکستان ایک زرعی معیشت و معاشرت رکھنے والا ملک ہے اِس لئے عالمی وبا سے پیدا ہونے والے ہنگامی حالات کا پاکستان پر زیادہ اثر نہیں ہوا اور کسی نہ کسی صورت معیشت کا پہیہ چلتا رہا۔ پاکستانی معیشت کی اِسی خصوصیت کی بدولت ’گوگل‘ نے پارٹنر تنظیموں کے ساتھ مل کر‘ نوجوانوں اور ڈیجیٹل سیکٹر کے درمیان فرق ختم کرنے کی کوشش کی ہے جس کے لئے پندرہ ہزار سے زائد تعلیمی وظائف (سکالرشپس) اور ’کیریئر سرٹیفکیٹس‘ متعارف کئے گئے ہیں۔ پاکستان ایک ایسی قوم کے طور پر دنیا کے سامنے بطور مثال موجود ہے جس کے پاس ڈیجیٹل انڈسٹری میں ترقی کی بے پناہ صلاحیت ہے لیکن ٹیکنالوجی کے ذریعے معیشت پر اثر انداز ہونے کے لئے نمائش‘ تربیت اور ضروری تعلیم کا فقدان ہے۔

 پاکستان میں گوگل اور معروف ٹیک تنظیموں نے مستقبل میں ٹیکنالوجی کے شعبے میں روزگار کے مواقعوں کو بھانپ رکھا ہے اور یہی وجہ ہے کہ نوجوان نسل کو مستقبل کے لئے تیار کیا جا رہا ہے۔ اندازہ ہے کہ پاکستان میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز سال دوہزارتیس تک قریب دس (9.7 ٹریلین) کھرب روپے ہو جائے گی۔ جو کم و بیش 59 ارب ڈالر کے مساوی ہو گی اور یہ سالانہ اقتصادی ترقی کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ گزشتہ دہائی کے دوران پاکستان کے ’آئی سی ٹی سیکٹر‘ میں بیس سے تیس فیصد سالانہ آمدنی میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کو اپنانے اور اِس شعبے میں بیرون ملک خدمات کی فراہمی میں بتدریج اضافے پر قومی توجہ مرکوز کی جائے تو اِس سے قیمتی زرمبادلہ نہایت ہی آسانی اور کم لاگت میں حاصل کیا جا سکتا ہے اور عالمی اداروں یا دوست ممالک سے قرض مانگنے سے یہ زیادہ پائیدار حکمت عملی ہوگی لیکن یہ اہداف ازخود حاصل نہیں ہوں گے۔

 ایشیائی خطے کی معیشتوں کے لئے ڈیجیٹل سیکٹر میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کا فائدہ اٹھانے کے لئے‘ سرمایہ کاری کی پالیسی کے فریم ورک تبدیل کرنا چاہئے اور قومی ڈیجیٹل منصوبوں اور خدمات کی ترقیاتی حکمت عملیوں میں شامل ہونا چاہئے۔ سرمایہ کاری کے فروغ اور سہولت کے لئے‘ سرمایہ کاری کے فیصلوں پر اثرانداز ہونے والے عوامل جیسا کہ فزیکل انفراسٹرکچر‘ ریگولیٹری فریم ورک اور آئی سی ٹی جیسی مہارتوں (شعبوں) سے متعلق پالیسیوں میں نظرثانی کی ضرورت ہے۔ ریگولیٹری فریم ورک میں بہتری کا دارومدار قوانین و قواعد پر سختی سے عمل درآمد ہے۔ ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کی ترقی‘ ای گورنمنٹ کی فعالیت اور آئی سی ٹی کی مہارتوں اور قابلیت کو فروغ دینے کے لئے قائم کردہ مختلف شعبہ جات (کراس سیکٹرل) منصوبوں کے ساتھ ڈیجیٹل ترقیاتی حکمت عملیوں کی وضاحت اہم اقدام ہے تاہم ایشیا اور دیگر ترقی پذیر خطوں میں اکثر ڈیجیٹل حکمت عملیوں میں سرمایہ کاری کی سہولت کے لئے مالیاتی ذرائع یا پالیسی کے بارے میں زیادہ معلومات عام نہیں۔

سرمایہ کاری کی ضروریات سے متعلق معلومات کو ڈیجیٹل انفراسٹرکچر سے آگے جانا چاہئے نیز غیرملکی براہ راست سرمایہ کاری کے ذریعے کسی بھی کاروبار کی ترقی کے لئے پالیسی اقدامات ایشیا پیسفک خطے میں ڈیجیٹل خدمات کا فروغ اور مؤثر طریقے سے استعمال ضروری ہے۔ ان میں ڈیجیٹل کلسٹرز‘ ٹارگٹڈ انٹرپرینیورشپ پروگرامز اور ڈیجیٹل اقتصادی زونز شامل ہیں۔ تاحال ملک میں صنعتی اقتصادی زونز تو بنائے گئے ہیں لیکن ڈیجیٹل اقتصادی زونز نہیں بنائے جا سکے اور یہی وجہ ہے کہ ٹیکنالوجی پر بھروسہ اور اِس میں سرمایہ کاری کو خاطرخواہ فروغ بھی نہیں مل سکا ہے۔ ٹیکنالوجی کے شعبے میں براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری راغب کرنے کے لئے کے لئے مرحلہ وار اقدامات اور لائحہ عمل وضع کرنا ہوگا جس میں ’کاپی رائٹس‘ کے ذریعے ڈیجیٹل حقوق کا تحفظ بھی شامل ہے۔

 پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں اگر کوئی شخص اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے کوئی نیا تصور پیش کرتا ہے تو اُس کے ہم عصر نقل کے ذریعے اُسے ناکام بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور نقول کا یہ سلسلہ اگرچہ صرف ڈیجیٹل و انفارمیشن ٹیکنالوجی کی حد تک نہیں لیکن اِس کے زیادہ منفی اثرات دانشورانہ املاک کے غیرمحفوظ ہونے کی صورت دیکھے جا سکتے ہیں۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور علوم پر مبنی خدمات جیسا کہ کلاؤڈ کمپیوٹنگ‘ ڈیٹا اینالیٹکس‘ سافٹ وئر ڈویلپمنٹ یا مینجمنٹ یا دیگر علوم‘ اِن سب میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لئے ٹھوس دانشورانہ املاک کے ضوابط (کاپی رائٹس تحفظ قوانین) کو زیادہ سے زیادہ لاگو کرنا ہوگا۔ ڈیجیٹل خدمات کی ترقی اور بیرونی سرمایہ کاری بنا پالیسی فریم ورک پر نظرثانی (غوروخوض) ممکن نہیں ہے۔