زندگی کی رفتار اب اتنی تیز ہو چکی ہے کہ دائیں بائیں دیکھنے تک کا ہوش نہیں رہتا اس لئے کسی کے پاس پیچھے مڑ کر دیکھنے کا نہ توو قت ہے نہ ہی دماغ کیونکہ زمانے کی تیز رفتاری صرف اور صرف آگے بڑھنے کی ہی ترغیب دیتی ہے‘ سانس بحال کرنے کے لئے رکنا بھی زندگی کے کارواں سے کہیں پیچھے رہ جانے کے مترادف ہے‘ ملک قمی نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ
رفتم کہ خار از پا کشم، محمل نہاں شد از نظر
یک لحظہ غا فل گشتم و صد سالہ را ہم دور شد
(میں نے رک کر پاؤں سے کانٹا نکالنا چاہا تو اتنی دیر میں (لیلیٰ) کا محمل نظروں سے اوجھل ہو گیا، (گویا) ایک لمحہ کو غا فل کیا ہوا کہ راستے سے سو سال دور ہو گیا۔ میں نے بہت کم لوگوں کو پیچھے مڑ کر دیکھنے کا روگ پالتے دیکھا ہے،خصوصاً باہر کے ممالک میں رہنے والے احباب کا دل ان کے آبائی علاقوں میں اٹکا ہوتا ہے، ان کے پاؤں میں ایک پر آسائش زندگی اور رزق نے ایسے سلاسل باندھ رکھے ہوئے ہیں کہ وہ لوٹ کر آ تو نہیں سکتے مگر اپنی جنم بھومی اور ان سنہرے دنوں کی ان گنت خوشگوار یادوں کی پھوار میں ہمیشہ شرابور رہتے ہیں‘دن کے ہنگاموں میں اگر اپنے وطن کو یاد کرنے کی فرصت نہ بھی ملے تو ان کے مہربان خواب ہمیشہ ان کو اپنے آبائی گھر کے در و دیوار میں آسودہ رکھتے ہیں، اس طرح وہ جسمانی طور پر اپنے علاقے سے دور ہونے کے باوجود اپنے بھیتر سے اپنا آبائی وطن نہیں نکال سکتے‘ لیکن ایسا سب لوگ نہیں کرتے‘میں ایسے بہت سے لوگوں کو بھی جانتا ہوں جو پرائے دیس میں خوش خوش وقت گزار تے ہوئے اپنے ماضی سے رشتہ قطع کر چکے ہیں، انہیں یاد بھی نہیں ہے کہ ان کا گزشتہ کل، کن رشتوں میں بندھا ہوا تھا۔وہ اگر بہ امر مجبوری اپنے وطن کی بات کرتے بھی ہیں تو لہجہ اس حد تک تنک جاتا ہے کہ حیرانی ہوتی ہے‘ لگتا ہے کہ جیسے یہ لو گ صدیوں سے یہاں مقیم ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جو کسی طور پیچھے مڑ کر دیکھنے کے روا دار نہیں ہیں، آوار زبان کے شاعر رسول حمزہ توف نے کہا ہے کہ اگر تم ماضی پر پستول تانو گے تو مستقبل تم پر توپ سے گو لہ باری کردے گا۔ لیکن کیا کیا جائے کہ جب ان لوگوں کو مستقبل کی اس گو لہ باری کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ اس وقت بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے،اس طرح سوچنے والے لوگوں کی تعداد کم بہت ہی کم ہے‘ مگراکثر واسطہ پڑ ہی جاتا ہے، اس کے بر عکس جو لوگ اپنے ساتھ تنہائی میں بات چیت کرنے کے عادی ہو تے ہیں‘ ان کو اگر ماضی کا کوئی بھولا بسرا لمحہ آواز دیتا ہے تو وہ بہت خورسند ہوتے ہیں، ایسا ہی ایک لمحہ مجھے گزشتہ کل نہال کر گیا جب مجھے ایک ای میل ملی۔ یہ میرے ایک ایسے دوست عبدالرحمان کی طرف سے موصول ہوئی تھی‘جنہیں آخری بار میں آج سے لگ بھگ پینتالیس سال (یا شاید اس بھی دو ڈھائی سال زیادہ) پہلے ملا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب میں نے فارسی سیکھنے کے لئے ”خانہ فرہنگ ایران پشاور“ میں اپنے دوست محمد یوسف عاصی کے ساتھ داخلہ لیا تھا، ستر کی دہائی کے وسط کا یہ زمانہ بہت خوبصورت اور محبتوں میں بھیگا ہوا تھا۔ تب زندگی کی رفتار بھی دھیمی اور پر لطف تھی، اگر چہ یہ ہمارے سٹرگل کا زمانہ تھا‘ یعنی مستقبل کے لئے خواب دیکھنے ہی نہیں بننے کا بھی زمانہ تھا، لیکن پھر بھی ہم بہت خوش اور آسودہ تھے، یہ وہی زمانہ ہے جب میں نظامت تعلیمات میں پبلی کیشن اسسٹنٹ تھا اور شام کو پہلے پہل مرحوم مختار علی کے نیشنل سکول
اینڈ کالج میں شام کو پڑھایا کرتا تھا (معروف فنکار فردوس جمال وہیں بی اے میں میرا سٹوڈنٹ تھا) اور پھر نیو رامپورہ گیٹ میں سید پھل بادشاہ مرحوم کے سرحد سکول اینڈ کالج میں پڑھانے جاتا تھا، اسی کالج میں معروف شاعر و نقاد اور صوفی دانشور اقبال سکندر سے میری پہلی ملاقات ہو ئی تھی وہ بھی وہیں پڑھاتے تھے، لیکن دو دو جاب کرنے کے باوجود میں شام کو صدر کی سڑکوں پر بے فکری سے دوستوں کے ساتھ رات گئے تک گھوما کرتا، اور پھر فارسی کی کلاس کے لئے بھی 25 واں گھنٹہ آسانی سے نکال لیا تھا، ہماری کلاس میں کوئی دس پندرہ لڑکے اور لڑکیاں تھے اور ہمارے ٹیچر ایران سے آئے ہوئے پشاور یونیورسٹی کے خوبرو اور بلا کے مہذب ایک طالب علم ”آقائے بیژن کلالی“ تھے، فارسی سیکھنے میں آسانی یوں ہو گئی تھی کہ انہیں اردو نہیں آتی تھی، انگریزی بولنا انہیں پسند نہ تھا اس لئے ہمیں بھی ان کے ساتھ ان ہی سے سیکھی ہوئی فارسی بولنا پڑتی تھی وہاں جا کر معلوم ہوا کہ میں نے مولوی امین استاد سے جو فارسی سیکھی تھی وہ فارسی جدید فارسی سے کوسوں دور تھی، بلکہ بعض
روزمرہ اور محاورے بھی ٹیچر نے سرے سے سنے ہوئے بھی نہ تھے، ایک بار رات کے کھانے کے بعد کی واک وہ سمجھا رہے تھے وہ لفظوں کے معانی سمجھانے کیلئے کلاس میں عملی مظاہرہ کیا کرتے تھے، میں نے ”واک“ سمجھانے کے لئے ان کی مشکل حل کرنے کے لئے کہا کہ ”آقا چہل قدمی“ ہنس پڑے کہنے لگے، یک دو چہل قدم کیا قدم گننا پڑے گا نہیں نہیں اسے گردش کہتے ہیں“ معلوم ہوا کہ چہل قدمی کا روزمرہ ٹیچر کی نئی فارسی میں تھا ہی نہیں، ہماری کلاس میں جو سٹوڈنٹ زیادہ پیش پیش تھے ان میں دو دوست خلیل الرحمن ایڈوکیٹ اور عبدالرحمن بھی شامل تھے جو پشاور یونیورسٹی میں غالباً لائبریرین تھے، جب ہم نے ایک اردو ڈرامہ کو ٹیچر اور ان کی خوش مزاج بیگم کے تعاون سے فارسی میں ٹرانسلیٹ کر کے سٹیج کرنے کا پروگرام بنایا تو ان کے گھر میں ریہرسل ہوا کرتی‘ان میں بھی یہی دو دوست پیش پیش تھے، ہنس مکھ اور بلند بانگ قہقہے لگانے والے خلیل الرحمن کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ کچھ عرصہ پہلے چل بسے مگر عبدالرحمن کی کوئی خیر خبر نہیں تھی، میرے دوست محمد یوسف عاصی بھی نہیں رہے۔ اب کم و بیش نصف صدی کے بعد مجھے رحمان جی کے ای میل نے مجھے ٹائم مشین میں بٹھا کر فرصتوں اور فراغتوں کے اس دل خوش کن ماحول میں پہنچا دیا جب سب دوست ایک دوسرے سے بہت جڑے ہوئے تھے، ہر شام ایک دوجے سے الگ ہوتے ہی اگلی شام کا انتظار کرنے لگتے تھے، ایک شام بنا دوستوں کے نہیں کٹتی تھی مگر اب وقت نے کہاں لا کھڑا کر دیا‘ رحمان جی نے اپنے ای میل کا پہلا طویل پیرا گراف اپنے بارے میں یاد دلانے کے لئے لکھا،خانہ فرہنگ ایران،فارسی کلاسیں،کچھ دوستوں کے نام اور جانے کیا کچھ لکھا تا کہ میں انہیں پہچان جاؤں، وہ اب بھی ”اقرا یونیورسٹی“ کی لائبریری میں ہوتے ہیں،میں نے انہیں فون نمبر بھیجا ان کے بیٹے نے بات کرائی بہت اچھا لگا کہہ رہے تھے بھائی اسّی کا ہو گیا ہوں مگر جاب اور مطالعہ جاری ہے کیا ہی اچھا ہو جوملاقات ہو جائے،میں نے حامی بھرتے ہوئے اپنے دل میں کہا کہ رحمان جی آپ کی ای میل نے ماضی کے ایک بہت ہی سکھ بھرے سنہرے دورمیں مجھے ٹرانسپورٹ کر دیا ہے‘ میں اسی کیفیت میں ملنے ضرور آؤں گا۔ اور کنول ڈبائیوی کی طرح دونوں مل کر گزرا ہوا اچھا وقت یا دکریں گے۔
ہنسی میں کٹتی تھیں راتیں خوشی میں دن گزرتا تھا
کنول ؔ ماضی کا افسانہ نہ تم بھولے نہ ہم بھولے۔