پاک ایران تجارت: روشن امکانات

پاکستان کو توانائی بحران سے نمٹنے کیلئے وفاقی حکومت سنجیدگی سے ایران پاکستان (آئی پی) گیس پائپ لائن پراجیکٹ  پر کام دوبارہ شروع کرنے پر غور کر رہی ہے اور اطلاعات یہ بھی ہیں کہ بین الاقوامی قوانین اور رہنما خطوط پر عمل کرتے ہوئے کسی ایسے درمیانی راستے کی تلاش ہے (جو عالمی اقتصادی پابندیوں اور مخالفت سے بچتے بچاتے) پاک ایران تجارتی روابط کے فروغ کا باعث بن سکے۔وفاقی حکومت ’آئی پی‘ گیس پائپ لائن پراجیکٹ پر کام دوبارہ شروع کرنے کیلئے اِس پورے منصوبے اور عمل کا جائزہ لے رہی ہے کیونکہ پاکستان میں مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کی کمی ہے۔ حکومت اندرونی قوانین پر عمل کرتے ہوئے پائیدار بنیادوں پر توانائی کی ضروریات پورا کرنے کیلئے آئی پی گیس پائپ لائن پراجیکٹ پر دوبارہ کام شروع کرنے کیلئے مختلف حل پر غور کر رہی ہے‘ خیال ہے کہ موجودہ حالات میں آئی پی گیس پائپ لائن پراجیکٹ ملک کی بڑھتی ہوئی توانائی کی ضروریات پورا کرنے کیلئے مناسب متبادل (بہتر آپشن) ہے۔ آئی پی گیس پائپ لائن پراجیکٹ کو دوبارہ شروع کرنے کے ممکنہ اور مناسب آپشنز پر تفصیلی تبادلہ خیال اور جائزہ لینے کیلئے نئے سیکرٹری پیٹرولیم کو ذمہ داریاں سونپ دی گئی ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی گزشتہ ماہ ستمبرمیں ’ایس سی او‘ کی کونسل آف ہیڈز آف سٹیٹ کے بائیسویں سالانہ اجلاس میں شرکت کی تھی اور پندرہ ستمبر دوہزار بائیس کے روز سمرقند میں ایران کے صدر سیّد ابراہیم رئیسی سے بھی ملاقاتیں ہوئیں‘ ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ تعطل کا شکار ہونے کی بنیادی وجہ امریکہ کی مخالفت ہے‘ اِس معاہدے پر پہلی بار 1995ء میں ایران اور پاکستان نے دستخط کئے تھے‘مبینہ طور پر ایران نے 2011ء میں پائپ لائن کا اپنا حصہ مکمل کرنے کے بعد پاکستان کو پچاس کروڑ (پانچ سو ملین) ڈالر کی امداد کی بھی پیشکش کی تھی لیکن پاکستان کی جانب سے اِس کا خاطرخواہ جواب نہیں دیا گیا‘یہ بنیادی طور پر ایران پر امریکی پابندیوں کی وجہ سے تعطل کا شکار ہوا‘گیس سیلز پرچیز ایگریمنٹ کے مطابق ایران کی جانب سے گیس کے بہاؤ کا آغاز یکم جنوری دوہزارپندرہ سے شروع ہونا تھا تاہم ایران پر عائد بین الاقوامی پابندیوں کی وجہ سے اس منصوبے (آئی پی) پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ گیس ایران کے جنوبی پارس گیس فیلڈ سے سپلائی کی جائیگی اور گوادر کے قریب پاک ایران سرحد پر پہنچائی جائیگی اس منصوبے کو اِس نقطہ نظر پر مکمل کیا جانا طے تھا کہ ہر ملک اپنے اپنے علاقے میں پائپ لائن کی تعمیر کا ذمہ دار تھا معاہدے کے تحت 750 ایم ایم سی ایف ڈی گیس پچیس سال تک ایک ہی نرخ پر فراہم کی جائیگی ایران صرف تیل و گیس ہی نہیں بلکہ دیگر شعبوں میں بھی پاکستان سے تجارت کا خواہاں ہے اور اِس سلسلے میں پشاور میں تعینات ایرانی قونصل جنرل ’حامد رضا غومی‘ فعال کردار ادا کر رہے ہیں رواں ہفتے (بیس اکتوبر) ایرانی قونصل جنرل نے خیبرپختونخوا کے صنعتکاروں اور تاجروں کی نمائندہ تنظیم ’سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری‘ کا دورہ کیا اور اِس موقع پر میزبانوں کی ایک نمائندہ تعداد سے نہایت ہی خوشگوار اور دوستانہ ماحول میں بات چیت کرتے ہوئے کہا ”ایران پاکستان کے ساتھ تجارت بڑھانے کا خواہاں ہے بالخصوص خیبر پختونخوا کے ساتھ تجارتی روابط بڑھانا ایرانی ترجیحات کا حصہ ہے یہی وجہ ہے کہ اقتصادی اور تجارتی تعلقات مضبوط بنانے کیلئے سنجیدہ اقدامات کئے جا رہے ہیں اور اِس سلسلے میں کراچی و لاہور میں کاروباری حضرات اور اداروں سے ملاقاتیں بھی اِنہی کوششوں کا حصہ ہیں۔ مشہد اور سرحد چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے درمیان جلد ہی ایک مفاہمتی معاہدے پر دستخط کئے جائیں گے جسکے تحت دوطرفہ تجارت بڑھے گی“ایرانی قونصل جنرل کے بقول مذکورہ پالیسی سے دوطرفہ اقتصادی اور تجارتی تعلقات میں مؤثر اضافہ ہوگا۔ سرحد چیمبر کی جانب سے ایران کے ساتھ دوطرفہ تجارت کا حجم بہتر بنانے کیلئے ٹیرف کے نظام کو معقول بنانے کی ضرورت پر زور دیا گیا دونوں ممالک تجارتی نمائش‘ بزنس ٹو بزنس ملاقاتوں کے ذریعے کاروباری برادریوں کو ایک دوسرے کے قریب لا سکتے ہیں جبکہ بارٹر ٹریڈ سے فروغ سے مقامی منڈیوں میں دونوں ممالک کی مینوفیکچرنگ مصنوعات تک آسان رسائی بھی ممکن ہے لیکن اِس کیلئے عملی کوششیں زیادہ تیز کرنا ہوں گی سرحد چیمبر پہلے ہی پشاور میں ”پاک ایران مشترکہ تجارتی نمائش“ کی تیاریاں کر رہا ہے تاہم عملاً بہتری صرف اُسی صورت ظاہر ہوگی جب دونوں ممالک کے درمیان آزاد تجارتی معاہدے پر دستخط ہوں گے۔