برطانیہ کی وزیر اعظم لز ٹرس نے وزارت عظمی کا عہدہ سنبھالنے کے 44 دن بعد ہی یہ کہتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے کہ وہ عوام سے کئے گئے اپنے وعدے پورے کرنے میں ناکام رہی ہیں۔اپنی سرکاری رہائش گاہ کے باہر ذرائع ابلاغ سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم لزٹرس کا کہنا تھا کہ انھوں نے شاہ چارلس کو بتا دیا ہے کہ وہ حکمران جماعت کنزرویٹو پارٹی کی سربراہی سے بھی مستعفی ہو رہی ہیں۔ انھوں نے وزارت عظمی کا منصب شدید معاشی دباؤ اور بین الاقوامی عدم استحکام کے دنوں میں سنبھالا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ سمجھتی ہوں کہ میں وہ وعدے یا مینڈیٹ پورا نہیں کر سکتی جس کے لیے کنزرویٹو پارٹی نے مجھے منتخب کیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت کو ملک کی گرتی ہوئی معاشی صورتحال کو بدلنے کا مینڈیٹ دیاگیا تھا ان کی حکومت نے بجلی اور گیس کے بِلوں میں کمی کی اور نیشنل انشورنس میں بھی رعایت دی اورکم ٹیکس اور زیادہ ترقی کی سوچ کو فروغ دیا۔
لِز ٹرس نے کہا کہ 'میں تسلیم کرتی ہوں۔کہ میں نے اس مینڈیٹ کو پورا نہیں کیا۔جس کے لیے مجھے پارٹی نے منتخب کیا تھا۔لِز ٹرس وزارت عظمی پر محض 44 دن تک فائز رہیں، جو برطانیہ کی تاریخ میں کسی بھی وزیر اعظم کی مختصر ترین مدت ہے۔ ان سے پہلے جارج کینِنگ 119 دن تک وزیراعظم رہے۔لِز ٹرس کی مشکلات اس وقت شروع ہو گئی تھیں جب 23 ستمبر کو ان کے منتخب کردہ پہلے وزیر خزانہ نے مِنی بجٹ پیش کیا تو برطانیہ کے بازار حصص اور معیشت میں کھلبلی مچ گئی۔اس کے بعد سے کنزرویٹِو پارٹی میں بے چینی بڑھنے لگی جس نے جلد ہی پارلیمانی پارٹی میں غم و غصے کی شکل اختیار کر لی اور ان کی جماعت کے لیے لِز ٹرس کا دفاع مشکل تر ہوتا گیا۔اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کو قومی مفاد پر قربان کرکے لزٹرس نے ثابت کردیا کہ وہ لوگ جمہوریت اور ملک و قوم کے لئے کس قدر مخلص ہیں۔ وہ قوم کی خدمت کآ جذبہ لے کر اقتدار میں آتے ہیں۔
جب وہ محسوس کرتے ہے کہ ان کا مزید اقتدار میں رہنا ملک وقوم کے مفاد میں نہیں۔ تو وزارت اعلی جیسے بڑے عہدے سے مستعفی ہونے میں ایک لمحے کی بھی تاخیر نہیں کرتے۔برطانوی پارلیمنٹ کو دنیا بھر کی پارلیمانوں کی ماں کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ جمہوری روایات کو ہر چیز پر نقدم سمجھتے ہیں ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ سیاست کو بطور پیشہ اختیار نہیں کرتے۔ کچھ عرصے کے لئے سیاسی پلیٹ فارم پر خدمات انجام دے کر کنارہ کش ہوتے ہیں مارگریٹ تھیچر، ٹونی بلییئر، تھیریسامے اورگورڈن براؤن ٹین ڈاؤننگ سٹریٹ کی سرکاری رہائش گاہ چھوڑنے کے بعد کہاں ہیں۔ ان کے قریبی رشتہ داروں اور دوستوں کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ حقیقت میں یہی جمہوری نظام کا حسن ہے امریکہ، فرانس، جرمنی، آسٹریلیا، کینیڈا، نیوزی لینڈ، سوئزر لینڈ اور دیگر جمہوری ملکوں میں یہی دستور رائج ہے۔ دوسری جانب پاکستان، بھارت، سری لنکا، بنگلہ دیش اور دیگر ترقی پذیر ملکوں نے جمہوری نظام برطانیہ سے مستعار لیا ہے تاہم یہاں جمہوری روئیے پروان نہیں چڑھے جو ترقی پذیر ممالک میں جمہوری عدم استحکام کا بنیادی سبب ہے۔