پشاور کہانی: کوڑا کرکٹ

صوبائی دارالحکومت ’پشاور‘ میں کوڑاکرکٹ (ٹھوس گندگی) ٹھکانے لگانے کے لئے ’پہلا ڈمپنگ سیل (Dumping Cell)‘ بنایا گیا ہے جو روایتی طریقے سے کوڑا کرکٹ تلف کرنے کی بجائے زیادہ بہتر متبادل قرار دیا جا رہا ہے۔ روایتی طریقے میں گندگی کے ڈھیر کھلے آسمان کے نیچے‘ تہہ در تہہ پہاڑ کی صورت کھڑا کر دیئے جاتے اور پھر ایک وقت وہ آتا ہے ڈمپنگ سائٹ پر مزید کوڑا کرکٹ ڈالنے کی گنجائش نہیں رہتی اور آس پاس کے علاقوں سے متعلقہ لوگوں کی چیخ و پکار (احتجاج) بھی اُس ’ڈمپنگ سائٹ‘ کو بند کرنے کا باعث بنتا۔ نئے طریقے میں‘ کوڑا کرکٹ ایک ایسے تالاب نما گڑھے میں ڈالا جاتا ہے جسے پلاسٹک کی چادروں (شیٹس) کے ذریعے اطراف اور پیندے سے ڈھانپ کر تیار کیا جاتا ہے اور مبینہ طور پر یہ بندوبست کم سے کم آئندہ 10 برس کے لئے کافی ہوگا۔پشاور واٹر اینڈ سینٹی ٹیشن سروسز (WSSP)‘ کی جانب سے 2 کروڑ 20 لاکھ روپے کی لاگت سے مکمل ہونے والے ’ڈمپنگ سیل منصوبے‘ میں اِس بات کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ کوڑا کرکٹ کے ڈھیر سے جو مختلف گیسیں اور آلودہ پانی کا اخراج ہوتا ہے وہ زیرزمین پانی تک نہ پہنچے اور اِس نکلنے والے آلودہ پانی کی تطہیر بھی کی جائے۔

جو میں کئی اقسام کی بیماریوں کے جرثومے ہوتے ہیں کیونکہ کوڑا کرکٹ ملا جلا (mix) ہوتا ہے اور اِس میں ہر قسم کے اشیا بشمول ایسی نجی علاج گاہوں کا کوڑا کرکٹ بھی شامل ہوتا ہے جسے اصولاً جلا کر تلف کیا جانا چاہئے لیکن ایسا کرنے کی بجائے کوڑا کرکٹ یکجا کرنے والی جگہوں پر پھینک دیا جاتا ہے۔ اہل پشاور کوڑا کرکٹ پھینکنے میں جس غیرذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہیں اُس سے پانچ قسم کے بنیادی مسائل نے جنم لیا ہے۔پہلا مسئلہ: پشاور کی کل 92 یونین کونسلیں ہیں جن میں سے بمشکل 60 یونین کونسلوں سے یومیہ 1 ہزار ٹن (ایک لاکھ کلوگرام) کوڑا کرکٹ اُٹھایا جاتا ہے جبکہ پشاور میں محتاط اندازے کے مطابق یومیہ دو سے ڈھائی لاکھ کلوگرام کوڑا کرکٹ پیدا ہوتا ہے۔ یوں پشاور کے مضافات میں بیشتر دیہی علاقوں پر مشتمل ’32 یونین کونسلوں‘ سے کوڑا کرکٹ باقاعدگی سے اکٹھا نہیں کیا جاتا۔ جب ہم یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ پشاور کی 60 یونین کونسلوں کے مختلف حصوں سے یومیہ کوڑا کرکٹ جمع کر کے اُسے ایک مرکزی مقام پر لا کر تلف کیا جاتا ہے تو اِس کا قطعی (ہرگز ہرگز) یہ مطلب نہیں ہوتا ہے کہ مذکورہ 60 یونین کونسلوں میں پیدا ہونے والے کوڑے کرکٹ کا ہر ایک تنکہ اُٹھایا جا رہا ہے۔

 دوسرا مسئلہ: پشاور کے شہری (پڑھے لکھے) علاقوں کے رہنے والوں کی اکثریت خواندہ ہے لیکن شہری خواندگی (سوک سینس) سے عاری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوڑا کرکٹ کی تلفی میں متعلقہ ادارے (ڈبلیو ایس ایس پی) سے غیرمشروط اور مکمل تعاون نہیں کیا جاتا ہے اور کوڑا کرکٹ یکجا کرنے کے مقررہ مقامات اور مقررہ اوقات کا ’لحاظ پاس (پابندی)‘ نہ کرنے کی وجہ سے شہر کے تقریباً سبھی حصوں کی گلی کوچوں کے داخلی و خارجی راستوں یا کونے کھدروں پر کوڑے کرکٹ کے ڈھیر لگے دکھائی دیتے ہیں۔ المیہ ہے کہ شہری ذمہ داریوں سے متعلق خواندگی اور شعور میں اضافہ کرنے کی کوششیں خاطرخواہ کامیاب نہیں ہو سکی ہیں۔تیسرا مسئلہ: پشاور سے گھر گھر اور گلی گلی اکٹھا کی جانے والی گندگی کو الگ الگ کر کے اکٹھا نہیں کیا جاتا۔ گندگی بنیادی طور پر 2 قسم کی ہوتی ہے۔ ایک قابل تحلیل اور دوسری ناقابل تحلیل۔ قابل تحلیل اور ناقابل تحلیل گندگی کو اکٹھا نہیں پھینکنا چاہئے۔

 وہ گندگی (کوڑا کرکٹ) جو وقت کے ساتھ قدرتی طور پر تحلیل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے جیسا کہ سبزی‘ پھل اور دیگر قدرتی اجناس کی باقیات (چھلکے یا اِن سے تیار ہونے والی خوردنی اجناس۔ دیگر اقسام کی گندگی میں کاغذ‘ شیشہ‘ پلاسٹک اور قدرتی و مصنوعی کیمیائی اجناس (محلول یا ٹھوس مادوں) سے بنی ہوئی اشیا وغیرہ جنہیں تلف کرنے کے عمل میں توانائی (بجلی و گیس) حاصل کرنے جیسے فوائد بھی حاصل کئے جا سکتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں گندگی کو الگ الگ کر کے تلف کیا جاتا ہے اور گندگی سے فائدہ اُٹھایا جاتا ہے بنیادی بات یہ ہے کہ مسائل حل کرنے کے لئے آبادی کے حوالے سے اعدادوشمار کا موجود ہونا ضروری ہے کیونکہ اعدادوشمار درست نہ ہوں تو اِن اعدادوشمار کو مدنظر رکھتے ہوئے جو منصوبہ بندی کی جائے گی وہ کس طرح جامع (درست) ہو سکتی ہے؟