عکاسی (فوٹوگرافی photography) کے ذریعے پشاور کی تاریخ و ثقافت اُجاگر کرنے کی ایک نہایت ہی منفرد کوشش ’فوٹو واک (Photo Walk)‘ کا انعقاد ہوا ہے جو قابل ذکر اور قابل تحسین و ستائش ہے۔ یہ تازہ ترین کوشش گزشتہ روز (تیئس اکتوبر دوہزاربائیس) کے روز دیکھنے میں آئی جب ’سونی (Sony)‘ کیمرہ کمپنی (قیام 7 مئی 1946ء) کے پاکستان میں نمائندے (برانڈ ایمبیسڈر) ’اثمار حسین‘ نے فوٹوگرافی کے شائقین کے ہمراہ گھنٹہ گھر سے سیٹھی ہاؤس تک سفر کیا اور اِس دوران فوٹوگرافی کے طریقے‘ فوٹوگرافی آلات سے آگاہی اور عالمی معیار کی فوٹوگرافی کے اسرار و رموز کی عملی (پریکٹیکل) تعلیم دی۔ ذہن نشین رہے کہ گھنٹہ گھر سے براستہ بازار کلاں سیٹھی ہاؤس تک کے قریب ایک تہائی کلومیٹر (300میٹر) کا حصہ پشاور کی ’ثقافتی راہداری‘ کہلاتا ہے اور اِس کے قیام کا مقصد ہی یہاں کے قابل دید مقامات اور پشاور شہر کے قدیمی حصوں کی تاریخ و ثقافت کو اُجاگر کرنا تھا اور ’پشاور‘ صرف پاکستان ہی کا نہیں بلکہ جنوب مشرقی ایشیاء کا قدیم ترین و زندہ تاریخی شہر ہونے کے علاوہ ’پھولوں کا شہر‘ بھی کہلاتا ہے۔ البتہ وہ باغات اور باغیچے نہیں رہے جن کی سیر کے لئے ’فوٹوواک‘ کا انعقاد کیا جائے۔ ذہن نشین رہے کہ ’فوٹو واک (PhotoWalk)‘ اُس چہل قدمی کو کہا جاتا ہے جس میں کوئی ایک شخص یا بہت سے لوگ بیک وقت چلتے پھرتے فوٹوگرافی کرتے ہیں۔ فوٹوواک فی البدیہہ (candid) فوٹوگرافی ہوتی ہے کہ اِس کے لئے کسی بھی شخص کو پہلے سے متنبہ نہیں کیا جاتا اور جو تصاویر بھی بنائی جاتی ہیں وہ قدرتی روشنی اور موجود حالات کی عکاسی ہوتی ہے۔ فوٹو واک درحقیقت ’سٹریٹ فوٹوگرافی‘ کی شکل ہے جو ’دستاویزی فوٹوگرافی‘ کے زمرے میں شمار ہوتی ہے اُوردنیا کی پہلی ’فوٹو واک‘ کا انعقاد امریکہ میں ہوا جہاں سال 1884ء میں ’کیمرہ کلب آف نیویارک‘ نے کیا تھا اور یہ طریقہ اِس قدر مقبول ہوا کہ کوڈک (Kodak) نامی ’ایسٹ مین (Eastman)‘ نے سال 1900ء میں سٹریٹ فوٹوگرافی شائقین کے لئے ایک خصوصی کیمرے کی ایجاد بھی کی تھی۔ مذکورہ کیمرے کی قیمت ’ایک ڈالر‘ رکھی گئی تھی اور اِس کم قیمت (ارزاں نرخ) کیمرے کی بدولت فوٹوگرافی کے ایک شائق (صارف) کے لئے بھی ممکن ہوا کہ وہ فوٹوگرافی کے ذریعے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کر سکے۔ چونتیس سالہ ’اثمار حسین‘ کا آبائی تعلق ’ڈیرہ اسماعیل خان‘ سے ہے۔ آپ تعلیم اور پیشے کے لحاظ سے انجینئر ہیں لیکن سال 2008ء سے فوٹوگرافی (عکاسی) کا شوق رکھتے ہیں‘ اُنہوں نے اپنے اِس شوق کو اِس حد تک ترقی دی کہ 51 ممالک میں آپ کی تصاویر کی نمائش ہو چکی ہے اور کئی عالمی اعزازت آپ کے نام ہیں جبکہ اُن کی تصاویر دنیا کے کئی معروف فوٹوگرافی جریدوں بشمول ’نیشنل جیوگرافک‘ میں شائع ہو چکے ہیں اور آپ فوٹوگرافی آلات بنانے والی ’سونی‘ کمپنی کے پاکستان میں نمائندے (ایمبسڈر) بھی ہیں۔ اثمار حسین کی فوٹوگرافی کے جنون اور ذاتی دلچسپی و کوششوں سے پشاور میں چار مرتبہ ’فوٹو واک‘ کا انعقاد ہو چکا ہے جس کے شرکا میں ہر عمر کے مرد و خواتین کے ساتھ بچے بھی شامل تھے جو چہل قدمی کے دوران فوٹوگرافی سے لطف اندوز ہونے کے علاوہ ’فوٹوگرافی‘ سے متعلق سوالات کرتے ہیں اور اثمار اُن کے سوالات سے پریشان یا اکتاہت کا شکار نہیں ہوتے بلکہ پوری دلچسپی سے ہر سوال کا جواب دیتے ہیں یقینا کسی تعلیمی ادارے میں فوٹوگرافی کی تدریس سے زیادہ پُراثر طریقہ یہی ہے کہ فوٹوگرامی کی عملی تعلیم دی جائے اور ’فوٹوواک‘ اِس سلسلے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ فوٹوگرافی واک کے لئے سورج کے طلوع ہونے سے 2 گھنٹے بعد یا پھر سورج کے غروب ہونے سے 2 گھنٹے پہلے کے اوقات کا انتخاب کیا جاتا ہے تاکہ دھوپ کی وجہ سے گہرے سائے تخلیق نہ ہوں۔ اِن اُوقات کو گولڈن ہار (Golden Hour) یا ’میجک ہار (Magic Hour)‘ بھی کہا جاتا ہے۔ وہ سبھی فوٹوگرافی کے شائقین جو آئندہ کسی ’فوٹو واک‘ میں شرکت کرنا چاہتے ہیں وہ فیس بک (AsmarsPhotography) اور انسٹاگرام (/asmarsphotography) کے علاؤہ ’سونی کی مڈل ایسٹ شاخ‘ کی ویب سائٹ (alphauniverse-mea.com) پر جا کر اپنے ناموں کا اَندراج کر سکتے ہیں۔’فوٹوواک‘ میں شرکت (حصہ لینے) کے لئے پہلی ضرورت ’درست‘ کیمرے کا انتخاب ہوتا ہے۔ یہ درست کیمرہ موبائل فون سے لیکر ڈیجیٹل سنگل لینز ریفلکس کیمرے (DSLR) تک کوئی بھی ہو سکتا ہے لیکن ایک اچھے کیمرے کا انتخاب فوٹوگرافی میں صارف کی دلچسپی اور حاصل ہونے والے معیار کا تعین کرتی ہے۔ توجہ طلب ہے کہ جس تیزی سے انسانی دماغ اپنے گردوپیش کو دیکھتا اور محسوس کرتا ہے اور جس خوبی سے انسانی دماغ روشنی اور رنگوں کے اثرات بھی قبول کر رہا ہوتا ہے کوئی بھی مہنگے سے مہنگا کیمرہ بھی ابھی اُس مقام تک نہیں پہنچا جو انسانی دماغ کے مساوی دیکھ‘ محسوس اور مناظر کو اُن کی تفصیلات کے ہمراہ محفوظ کر سکے لیکن ایسے کیمرے ایجاد کر لئے گئے ہیں جو انسانی آنکھ اور دماغ کے امتزاج سے تخلیق ہونے والی تصاویر کو بھی کم سے کم اُسی رفتار و معیار سے محفوظ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ’فوٹوواک‘ کی دوسری ضرورت یہ ہوتی ہے کہ ایک اچھا کیمرہ حاصل کرنے کے بعد اُس کیمرے کی صلاحیتوں‘ خصوصیات اور حدود (کمی بیشیوں) پر عبور حاصل کیا جائے۔ فوٹو واک کے لئے درست کپڑوں (ملبوسات) کا انتخاب کرتے ہوئے مقامی ثقافت اور فیشن کا خیال رکھنے کا بھی مشورہ دیا جاتا ہے‘ تاکہ فوٹوگرافر بنا کسی مداخلت اپنا کام جاری رکھ سکے اور وہ ماحول میں خود جذب ہو کر عکاسی کرے۔ جہاں تک کیمرے کی خصوصیات (فنکشنز) کے بارے میں علم (نالج) حاصل کرنے کی بات ہے تو کیمرہ کی حدود (لمیٹیشنز) کے بارے میں جاننا شعوری طور پر اچھی تصاویر حاصل کرنے کی ضمانت بن سکتا ہے۔ ویسے تو ہر فوٹو (عکس) کچھ نہ کچھ اہمیت رکھتا ہے لیکن کسی عالمی معیار کے مطابق تصویر بنانے کے لئے فوٹوگرافی کے اصول و قواعد سے آشنائی ضروری ہے۔ ’کیمرہ واک‘ کے لئے بہترین انتخاب ’وائڈ اینگل عدسوں (wide-angle)‘ لینزیز کا انتخاب سمجھا جاتا ہے بالخصوص جب پرہجوم مقامات پر فوٹوواک ہو رہی ہو۔ مذکورہ تینوں شرائط پورا کرنے کے بعد فوٹوگرافر کے لئے یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ وہ انتہائی گہرائی سے مطالعے اور مشاہدے کی عادت رکھتا ہو اور اُس کی آنکھوں کی طرح دماغ کی آنکھیں بھی کھلی ہونی چاہیئں۔ ہم سب کے اردگرد‘ نہایت ہی تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہوتی ہیں اور اگر وہ اِن تبدیلیوں کو فوری طور پر دیکھ کر (برق رفتاری سے) محفوظ نہیں کرتا تو وہ ایک لمحہ ضائع ہو جاتا ہے جو پھر کبھی واپس نہیں آ سکتا۔ فوٹوگرافی (عکاسی) لمحات کو محفوظ کرنے کا ہنر ہے۔ لمحہ لمحہ پشاور کی سیر کرنے والے اپنے ساتھ حسین یادیں محفوظ کر کے لے گئے ہیں‘ جو رہتی زندگی تک اِنہیں عزیز رہیں گی۔ وقت ہے کہ نجی شعبہ جس انداز میں پشاور کی تاریخ و ثقافت کو محفوظ و ترویج کی کوششیں کر رہا ہے تو متعلقہ حکومتی ادارے (ٹورازم و آرکیالوجی) بھی اِسی قسم کی ’فوٹوواکس‘ کا اہتمام کریں تاکہ پشاور شناسی بڑھے اُور ’فوٹوگرافی‘ کا عمومی اسلوب ’پشاور گرافی‘ کا روپ دھار لے۔