منی لانڈرنگ اور دہشتگردی کو مالی معاونت فراہم کئے جانے پر نظر رکھنے والے عالمی ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی جانب سے پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کا اعلان ہوا ہے۔ایف اے ٹی ایف کی طرف سے پاکستان کو چار سال بعد گرے لسٹ سے نکالنے کا سرکاری سطح پر خیر مقدم کیا گیا اور اسے پاکستان کی بڑی کامیابی قرار دیا گیا۔اظہار مسرت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ گرے لسٹ کے بعد پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈالے جانے کا خطرہ موجود تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب پاکستان کا اگلا لائحہ عمل کیا ہو گا گرے لسٹ سے نکلنے سے پاکستان کے لیے کیا آسانیاں پیدا ہو سکتی ہیں؟ماہرین کے مطابق اس لسٹ سے نکلنے کے بعد پاکستان کے لیے بین الاقوامی سطح پر سرمایہ کاری کا دروازہ کھل سکے گا اور ملک میں براہ راست سرمایہ کاری ممکن ہو سکے گی کیونکہ گرے لسٹ میں موجودگی کے باعث کوئی بھی بین الاقوامی کمپنی پاکستان میں سرمایہ لگانے یا بینکوں پر اعتماد کرنے سے ہچکچاتی تھی۔اس اعتماد کو بحال ہونے میں تھوڑا وقت لگ سکتا ہے۔اب پاکستان ریگولر مانیٹرنگ میں آ جائے گا جس سے ایک بڑی سہولت بینکنگ سیکٹر میں ملے گی جس کے تحت پاکستان کو سیلاب زدگان کی مدد کرنے کے لیے دی جانے والی امداد اب باآسانی مقامی بینکوں میں آ سکے گی اور اس پیسے کی جانچ پڑتال کم ہو گی۔پاکستان پر بعض تجارتی پابندیوں کا بھی خاتمہ ہوگا۔ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لئے 2018 سے لے کر 2022 تک پاکستان کو ان تمام سفارشات کو مکمل کرنا تھا جس کے بارے میں فیٹف نے پاکستان کو مکمل پلان تیار کر کے دیا تھا۔ یہ تمام عرصہ ان 34 سفارشات کی تکمیل میں لگ گیا۔ جو تنائج سامنے آئے وہ یقینا حوصلہ افزاء یہ تاہم اب بھی یہ سفر تمام نہیں ہوا۔ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے بعد اس کے ثمرات سمیٹنے کیلئے اداروں کے اندر اصلاحات لا کر ان کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہو گی۔ تاکہ کہیں بھی مشتبہ ٹرانزیکشن ملے تو اس گروہ،فرد اور کمپنی کے خلاف فوری قدم اٹھایا جاسکے۔ معروف ماہر معاشیات عزیر یونس کے مطابق جب کوئی ملک ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ہوتا ہے تو غیر ملکی کمپنیوں اور اداروں کو اس ملک میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے قائل کرنا بے حد مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ہونے سے مالیاتی لین دین میں مسائل پیدا ہوتے ہیں۔اب جبکہ پاکستان اس لسٹ سے باہر نکل آیا ہے تو ایک مرتبہ پھر بین الاقوامی کمپنیاں پاکستان میں براہِ راست سرمایہ کاری کرنے پر آمادہ ہوں گی۔پاکستان نے اس حوالے سے اپنے مالیاتی نظام کو بہت تگ و دو کے بعد ایف اے ٹی ایف کی سفارشات سے ہم آہنگ کیا ہے، مگر زمینی صورتحال کو بھی قابو میں رکھنا اتنا ہی اہم ہو گا جتنا کہ مالیاتی نظام کو سنبھالے رکھنا ضروری ہے۔