پاکستان کے توانائی بحران سے نمٹنے کے لئے ’نئی حکمت‘ یہ سامنے آئی ہے کہ ’قابل تجدید توانائی‘ میں اضافہ کیا جائے۔ اِس مقصد کے لئے پانچ سال میں خطیر سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ جبکہ ’نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا)‘ کو اُمید ہے کہ توانائی کے پیداواری منصوبوں (پاور جنریشن پراجیکٹس) سے مجموعی طور پر 12ہزار670میگاواٹ اضافی بجلی میسر آئے گی۔ یہ صورتحال ایسے وقت میں سامنے آرہی ہے جب کہ ملک کا ٹرانسمیشن نیٹ ورک پہلے ہی مختلف مسائل کا شکار ہے اور ہر سال ڈیڑھ سو ارب روپے سے زیادہ مالیت کی توانائی (بجلی) ضائع ہو رہی ہے اور جب ہم بجلی ضائع ہونے کی بات کرتے ہیں تو اِس کی قیمت بھی مختلف ٹیکسوں کی صورت صارفین ہی سے وصول کی جاتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ بجلی کی فی یونٹ قیمت اور مجموعی خرچ شدہ یونٹوں پر اضافی سرچارجز لگا دیئے جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب ایک عام صارف بجلی کے ترسیلی نظام کی خرابیوں اور بجلی کی چوری کے لئے ذمہ دار نہیں تو اُس پر خسارے کا بوجھ کیوں ڈالا جاتا ہے؟تازہ ترین پیشرفت یہ ہے کہ توانائی کے شعبے کی ادائیگیاں جو سال 2019ء میں 570ارب روپے تھیں سال 2020ء میں بڑھ کر 860ارب روپے اور رواں برس دوہزاربائیس) میں 970ارب روپے تک جا پہنچی ہیں۔”نیپرا“ نے اپنی سٹیٹ آف انڈسٹری رپورٹ 2021-22ء جاری کی ہے جس کے مطابق مالی سال دوہزاراکیس بائیس کے دوران فراہم کردہ اضافی پیداواری صلاحیت ’تین ہزار ایک سو چوراسی میگاواٹ‘ تک ہے جس میں اضافہ کا رجحان برقرار رہے گا اور یہ صلاحیت مالی سال دوہزارچھبیس ستائیس تک 12ہزار 674میگاواٹ تک پہنچ جائے گی‘ بجلی کی یہ اضافی پیداوار ملک کے پاور سیکٹر کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج ہو گی کیونکہ اگر بجلی زیادہ پیدا ہو رہی ہے اور اِس کی فروخت یا ترسیل کم ہو رہی ہے تب بھی حکومت کو خسارہ ہوتا رہے گا اور یہ خسارہ عام صارف کو منتقل کیا جاتا رہے گا۔ ”نیپرا“ نے اپنی مذکورہ رپورٹ میں کہا ہے کہ موجودہ مالی سال دوہزار بائیس تیئس کے دوران اضافی (سرپلس) بجلی 9ہزار میگاواٹ تک پہنچ جائے گی۔ منصوبہ بندی کے مطابق ’چونتیس ہزار سات سو تیس میگاواٹ‘ کی پیداواری صلاحیت کے مطابق پیک آورز (زائد طلب کے گھنٹوں) میں تقریباً ’پچیس ہزار آٹھ سو میگاواٹ‘ کی طلب ہے جس میں ہر سال اضافہ ہوتا رہے گا۔ اس طرح مالی سال دوہزارستائیس تک اضافی بجلی 12ہزار 674میگاواٹ ہوجائے گی جب کہ تقریباً 44ہزار 950میگاواٹ کی کل صلاحیت کے مقابلے میں زیادہ سے زیادہ طلب 32ہزار 275میگاواٹ ہونے کا تخمینہ ہے۔ ذہن نشین رہے کہ ’پانچ سو کلو واٹ (کے وی)‘ اور 200 کے وی ٹرانسمیشن نیٹ ورک کی اوور لوڈنگ کے باعث پہلے ہی تقریباً ’72ارب روپے‘ کا نقصان ہو رہا ہے‘ اس کے ساتھ چین کے تعاون سے بنائی جانے والی بڑی ٹرانسمیشن لائن کی انڈر لوڈنگ کی وجہ سے تقریباً پچاس ارب روپے کا نقصان الگ سے ہے‘ اِس نقصان کی وجہ اُن پاور پلانٹس (بجلی گھروں) کی تکمیل میں تاخیر ہے جن کے لئے کئی ارب ڈالر کے منصوبے سے متعلق معاہدے کئے گئے تھے۔ نیپرا رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ”پاور سیکٹر کو سسٹم کی خرابیوں کی وجہ سے ہونے والے بڑے نقصانات سے بچانے کے لئے ’ترسیلی نظام (ٹرانسمیشن نیٹ ورک) میں خامیوں اور نقائص کو ہنگامی بنیادوں پر دور کرنا انتہائی ضروری ہے۔ اسی طرح آر ایل این جی پلانٹس‘ حب کو‘ چائنہ پاور ہب وغیرہ سے بجلی کی پیداوار میں درپیش رکاوٹوں کو ترجیحی بنیادوں پر فوری طور پر دور کرنے کی ضرورت ہے۔ نیپرا نے نشاندہی کی ہے کہ مطلوبہ پیداواری صلاحیت کی کمی کی وجہ سے ہائی وولٹیج ڈائریکٹ کرنٹ مٹیاری لاہور ٹرانسمیشن لائن مالی سال دوہزاراکیس بائیس کے دوران کم استعمال میں رہی اور بجلی کی فی یونٹ لاگت کے لحاظ سے صارفین پر اضافی بوجھ ڈالا گیا۔ نیپرا رپورٹ کا خلاصہ یا لب لباب یہ ہے کہ توانائی (بجلی) صارفین کو بجلی کی مقدار کے استعمال سے قطع نظر اضافی پیداواری صلاحیت کے لئے بھی ادائیگی کرنا پڑے گی اور سال دوہزارتیس تک یہ رقم موجودہ 9کھرب روپے سے بڑھ کر 16کھرب روپے ہو جائے گی!دوسری طرف ’پاکستان الیکٹرسٹی آؤٹ لک 2022ء‘ جاری ہوئی ہے جو ”لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمز)“ کے انرجی انسٹی ٹیوٹ نے تیار کی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ بجلی کی طلب میں متوقع اضافے کے باوجود صارفین کو موسمِ گرما میں پندرہ فیصد سے سردیوں میں چالیس فیصد تک اضافی مہنگی بجلی خریدنا پڑے گی۔