پشاور کہانی: مہنگائی کی لہر

بنیادی استعمال کی اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے کی صورت ہر دن مشکل کا سامنا کرنے والے اہل پشاور ’نوحہ کناں‘ ہیں‘ مہنگائی کو کسی کروٹ قرار نہیں۔ پشاور کو اگر چھ حصوں میں تقسیم کیا جائے جس کا پہلا حصہ فصیل شہر کا اندرونی علاقہ‘ دوسرا فصیل شہر سے متصل مضافاتی علاقے جو ایک سرکلر روڈ کی صورت اندرون شہر کا چاروں سمت سے احاطہ کئے ہوئے ہیں‘ تیسرا حصہ مشرق میں ترناب فارم سے قلعہ بالاحصار‘ چوتھا قلعہ بالاحصار سے متنی (جنوب میں کوہاٹ روڈ تک)‘ پانچواں تختہ بیگ سے حیات آباد (مغرب) اور چھٹا حصہ چارسدہ روڈ سے لڑمہ اور خزانہ تک (شمال) کے دیہی علاقوں کو فرض کیا جا سکتا ہے جو کسی بھی لحاظ سے انتظامی تقسیم نہیں لیکن صرف ’مہنگائی کی لہر‘ اور اِس کے اثرات کو سمجھنے کیلئے ساختہ حدود ہیں‘اِس تقسیم کی ضرورت اِس لئے پیش آئی ہے کہ اندرون شہر (مرکز) سے جو دیہی و مضافاتی علاقہ جس قدر دوری پر ہے وہاں مہنگائی اور ناقص المعیار اشیاء کی فروخت اُسی قدر زیادہ ہے‘ مثال کے طور پر اگر روٹی کے وزن ہی کو لے لیا جائے تو پشاور کے مذکورہ چھ حصوں میں ملنے والی روٹی کا وزن ایک دوسرے سے مختلف پایا جاتا ہے۔

 یہی صورتحال سبزی‘ زندہ مرغی‘ گوشت‘ گندم کے آٹے اور دیگر خوردنی اشیاء کی قیمتوں سے متعلق بھی ہیں‘ جن کی قیمتوں میں ہر دن اضافے کا رجحان اہل پشاور کی سمجھ میں نہیں آ رہا۔حکومت کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی بھی کی گئی جس کے ثمرات تاحال پشاور کو مہنگائی میں کمی کی صورت نہیں مل سکے ہیں اور اِس کا جواز جو بھی ہے عوام کے سامنے آنا چاہئے۔ پشاور میں اشیائے خوردونوش کے مقررہ سرکاری نرخنامے سے زیادہ قیمت پر فروخت ہونے والی اشیاء کا تعلق معیار سے بتایا جاتا ہے جو ایک نہایت ہی کمزور اور گھساپٹا بہانہ ہے۔ قیمتوں کے ایک سرسری جائزے سے معلوم ہوا ہے کہ ادرک چارسو روپے فی کلو گرام‘ لہسن تین سو سے ساڑھے تین سو روپے فی کلو‘ ٹماٹر دوسو سے دوسوبیس روپے فی کلو‘ ہری مرچ دوسو روپے فی کلو‘ لیموں ڈیڑھ سو روپے فی کلو‘ کھیرا ستر سے اَسی روپے فی کلو‘ گاجر ستر روپے فی کلو اور مولی تیس روپے فی کلو یا چالیس روپے فی بنڈل فروخت ہو رہی ہے۔

 موسم کی نئی سبزی مٹر چارسو روپے فی کلو‘ شملہ مرچ تین سو روپے فی کلو‘ توری دوسو روپے فی کلو‘ اروی ڈیڑھ سو روپے فی کلو‘ بھنڈی ایک سو بیس سے ڈیڑھ سو روپے فی کلو‘ گوبھی ایک سو بیس روپے فی کلو‘ پھول گوبھی سو روپے فی کلو‘ کریلا ڈیڑھ سو روپے فی کلو‘ کریلا ایک سو روپے فی کلو‘ ٹنڈا ایک سو روپے فی کلو‘ شلجم اَسی روپے فی کلو‘ پرانا آلو نوے روپے فی کلو گرام‘ سرخ رنگ کا تازہ آلو ستر روپے فی کلو‘ سفید رنگ کا آلو ساٹھ روپے فی کلو فروخت ہو رہا ہے۔ ایک کلو گرام زندہ مرغی کی قیمت دوسواَسی روپے‘ سرد موسم کے ساتھ فارمی انڈوں کی قیمت اضافے کے ساتھ ایک ہفتے میں 220 روپے فی درجن سے 275 روپے فی درجن تک جا پہنچی ہے جبکہ گولڈن فارمی انڈے ساڑھے تین سو روپے فی درجن میں دستیاب ہیں۔ قیمتوں میں اضافے کی لپیٹ میں گائے کا گوشت بھی ہے جس کی قیمتیں سات سو روپے فی کلو گرام‘ مٹن سولہ سو سے سترہ سو روپے فی کلو گرام ہے۔ پشاور کی تھوک (ہول سیل) اور پرچون (ریٹیل) مارکیٹوں میں بیس کلو گرام آٹے کا تھیلہ بائیس سو پچاس روپے اور دانے دار آٹے کا بیس کلوگرام تھیلہ اکیس سو روپے میں فروخت ہو رہا ہے۔

آٹے جیسی بنیادی ضرورت کی قیمت اِس لحاظ سے بھی زیادہ ہے کہ 20 کلوگرام کا تھیلا بمشکل 18 کلوگرام ہوتا ہے اور کم وزن تھیلے کی فروخت کھلے عام جاری ہے‘پشاور کی ضلعی انتظامیہ (ڈپٹی کمشنر) اوزان کی جانچ پڑتال کے حوالے سے جس کارکردگی کی تشہیر اپنے ’سوشل میڈیا اکاؤنٹس‘ سے کرتے ہیں‘ اگر اُس پر ہونے والے عوام کے تبصروں کو پڑھیں اور شکایات کا بھی نوٹس لیں تو انتظامیہ کی مہربانی ہوگی۔ آٹے کے ہر 20کلوگرام تھیلے پر فلور مل کا نام اور فروخت کرنے والے ڈیلر کے پاس خریداری کا ثبوت ہوتا ہے جس کے بعد کم وزن تھیلے فراہم کرنے والوں فلور ملوں کے خلاف کاروائی بآسانی کی جا سکتی ہے کیونکہ جرم ثابت کرنے کے لئے اِس قدر ثبوت کافی ہیں‘ دوسری طرف صارفین کی تنظیمیں نہ ہونے کی وجہ سے تھوک و پرچون کے تاجر من مانیاں کر رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ پشاور میں صارفین کی نمائندہ تنظیم موجود نہیں اور ایسا بھی نہیں کہ پشاور میں سٹیزن پولیس لائزن کمیٹی وجود نہیں رکھتی بلکہ ایسی درجنوں تنظیموں کے عہدیدار سرکاری اداروں سے مراعات حاصل کر رہے ہیں اور یہ اہل پشاور کی نمائندگی و قیادت کا دعویٰ بھی کرتے ہیں جو سوائے زبانی جمع خرچ کچھ نہیں۔ 

پشاور میں آٹے کی 80 کلوگرام بوری جو زیادہ تر تندوروں کو فراہم کی جاتی ہے کی قیمت گزشتہ چند روز میں نو ہزار روپے سے بڑھ کر نو ہزار اَسی روپے اور نو ہزار ایک سو روپے کر دی گئی ہے‘ ظاہر ہے کہ جب تندوروں کو مہنگے داموں آٹا ملے گا اور اُنہیں روٹی کی قیمت بھی ازخود بڑھانے کی اجازت نہیں دی گئی تو ایسی صورت میں وہ روٹی کا وزن کم کر کے کاروبار کرتے رہیں گے۔ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ پشاور میں مہنگائی سے اگر کوئی پریشان بلکہ پریشان حال ہے تو وہ صرف اور صرف صارفین ہیں‘ باقی ماندہ ہر طبقے کے درجہ بہ درجہ حکمرانوں کے وارے نیارے ہیں! جس بندوبست کو طرزحکمرانی اور قیمتوں پر کنٹرول قرار دیا جاتا ہے‘ وہ کم سے کم ضلع پشاور کی حد تک عوام کے حق میں ناکام و ناکافی لیکن تاجروں دکانداروں اور ضلعی انتظامیہ کے حق میں مفیدو کار آمد ہے۔ 

صوبائی فیصلہ سازوں سے اِس صورتحال کا نوٹس لینے کی استدعا ہے۔صوبے کی حکومت عوام کو ریلیف دینے کیلئے جو بھی کوششیں کر رہی ہے وہ اسی صورت ثمر آور ہو سکتی ہیں جب ان پر عمل درآمد کو مانیٹر کیا جائے۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ غریب عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں‘مہنگائی کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ہر آئے روز اس میں اضافہ ہی ہو رہا ہے‘موجودہ حکومت جو مہنگائی سے عوام کو نجات دلانے کا وعدہ اور عزم کرکے اقتدار میں آئی تھی باؤجود کوششوں کے ابھی تک اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے‘اس وقت معیشت کو مستحکم کرنے کے لئے اقدامات کی ضرورت ہے اس کے بغیر مہنگائی کم نہیں ہو سکتی لہٰذا حکومت کو چاہئے کہ اس سلسلے میں ترجیحی بنیادوں پر کام کرے تاکہ غریبوں کو کچھ تو ریلیف ملے۔