طویل انتظار اور کارکنوں کومسلسل متحرک رکھنے کے بعد آخرکا ر پی ٹی آئی کے سربراہ اعمران خان نے لانگ مارچ کابگل بجاہی دیامنگل کو اسلام آبادمیں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے واضح کیاکہ جمعہ کو لانگ مارچ لاہور سے شروع ہوگا جو پرامن طریقے سے اسلام آباد کارخ کرے گا جہاں عدالت کی طرف سے متعین کردہ مقام پر دھرنا دیاجائے گا جس ر وز پی ٹی آئی کے چیئر مین عمران خان لانگ مارچ کی تاریخ دے رہے تھے اسی روز چند گھنٹے قبل ہی وہ پشاور میں تھے اور وکلاء کنونشن سے خطاب بھی کیا تاہم انہوں نے لانگ مارچ کی تاریخ کااعلان پشاور سے نہیں کیا اس سے قبل پچیس مئی کو ہونے والے لانگ مارچ کی تاریخ کااعلان بھی یہیں سے کیاگیاتھااور آغاز بھی اسی صوبہ سے کیاتھا تاہم اب کے بار پی ٹی آئی مکمل مختلف حکمت عملی کے ساتھ میدان میں اترتی دکھائی دے رہی ہے گذشتہ لانگ مارچ کے موقع پر پنجاب میں ن لیگ کی حکومت تھی جس نے پنجاب کے قافلے اسلام آباد تک پہنچنے سے روکنے کے لیے جو حکمت عملی بنائی تھی وہ کامیاب رہی تھی اگرچہ اس پر کافی تنقید بھی کی گئی تھی تاہم اس حکمت عملی کی کامیابی کے باعث ہی پنجاب سے کارکن اسلام آباد میں بھرپور انداز میں داخل نہیں ہوسکے تھے اس بار پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے اور ظاہر ہے کہ لانگ مارچ کو مکمل طورپر تحفظ فراہم کیا جائے گا اسی لیے تو وزیر داخلہ ہاشم ڈوگر کو تبدیل کرکے عمر سرفراز چیمہ کو مشیر داخلہ پنجاب لگایاگیاہے اسی لیے اس بار پی ٹی آئی نے بھی پنجاب پر پوری توجہ مرکوز کی ہوئی ہے جہاں تک خیبرپختونخوا کاتعلق ہے تویہاں پی ٹی آئی گذشتہ نو برس سے برسراقتدار ہے اس لیے یہاں سے کارکنوں کو نکالنا زیادہ مشکل امر نہیں ہوگا اورنہ ہوناچاہئے البتہ اس بار قومی اسمبلی اور اس کے تحت آنے والے صوبائی اسمبلی کے حلقوں کو چار سے پانچ ہزار کارکنان لانے کاپابند بنایاگیاہے سب ایم پی ایز اور ایم این ایز اور پارٹی رہنماؤں کو تاکیدکی گئی تھی کہ لانگ مارچ میں شرکت کرنے والے کارکنوں کی فہرستیں مرکزی قیادت کو بھجوائی جائیں یہ فہرستیں بھجوائی جاچکی ہیں اور اس بار حاضر ی یقینی بنانے کے لیے بھی خصوصی ڈیوٹیاں لگائی گئی ہیں مبصرین نے لانگ مارچ کے اعلان سے قبل پی ٹی آئی کے چیئر مین عمران خان کی سیاست میں نمایاں ٹھہراؤ محسو س کیا کیونکہ اس پر گذشتہ کئی ہفتوں سے مسلسل دباؤ ڈالا جارہاتھا کہ وہ جلد ازجلد لانگ مارچ کی تاریخ کااعلان کریں مگر انہوں نے اس بار جلد بازی کامظاہرہ کرنے کے بجائے اپنے لیے حالات اور میدان سازگارہونے کاانتظار کرنا مناسب جانا مئی سے اکتوبر تک کے دوران نہ صرف پنجاب میں ضمنی الیکشن کی فتح اور اس کے نتیجہ میں پنجاب میں حکومت سازی کی راہ ہموار ہوئی بلکہ سولہ اکتوبر کو ہونے والے ضمنی الیکشن میں بھی پی ٹی آئی نے کامیابی سمیٹی جہاں تک پاکستان میں سیاسی احتجاج اور لانگ مارچوں کاتعلق ہے تو اس کی تاریخ بہت پرانی ہے سب سے پہلے بھرپور احتجاج ختم نبوت کے معاملہ پر 1953میں پنجاب میں ہوا اس دوران ملک کی تاریخ میں پہلی بار مارشل لاء بھی نافذ کیاگیا بعدازاں جنرل ایوب کے خلاف 1968میں شروع ہونے والے احتجاج میں 1969میں مزید شدت آئی اوریہ احتجاج ایوب خان کااقتدار لے ڈوبا۔ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف 1977کے الیکشن میں منظم دھاندلی کے معاملہ پر اپوزیشن جماعتوں نے پی این اے کے پلیٹ فارم سے منظم اوربھرپور احتجاجی تحریک چلائی تاہم تحریک کی کامیابی سے قبل ہی ملک مارشل لاء کی نذر ہوگیا۔1989میں جب ملک میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو قائم ہوئے ابھی چندما ہ ہی ہوئے تھے مسلم لیگ کی طرف سے اسلام آباد میں جنرل ضیاء الحق کے مزار پر طاقت کابھرپور مظاہر ہ کیاگیا اس کے بعد پیپلز پارٹی نے جواب دینے کے لیے 1992میں اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے لانگ مارچ کااعلان کردیا اس لانگ مارچ پر بدترین تشدد کیاگیااور بے نظیر بھٹو سمیت پارٹی کی قیادت کو گرفتار کرلیاگیاتھا حالات کشید ہ تر ہوگئے جس کے نتیجہ میں اس وقت کے صدر غلام اسحق خان نے حکومت اور اسمبلیوں کو برطرف کردیا تاہم مئی میں سپریم کورٹ نے اسمبلی اورحکومت بحال کردی جس کے بعد سولہ جولائی 1993کو بے نظیر بھٹونے ایک بارپھر الیکشن کی تاریخ لینے کے لیے اسلام آباد کی طرف مارچ کیاتاہم اسلام آباد میں داخل نہ ہوسکیں اس مرحلہ پر اس وقت کے آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ کامشہور فارمولہ سامنے آیا صدر اوروزیر اعظم دونوں مستعفی ہوگئے اور ملک میں نئے الیکشن کااعلان کردیاگیا بعدازاں جب بے نظیر بھٹودوسری مدت کے لیے وزیر اعظم بنیں تو مسلم لیگ اور اتحادی جماعتوں کی طرف سے ٹرین مارچ کیاگیا اور ملک بھر میں تحریک نجات چلائی گئی 2007ء میں جنرل پرویز مشرف کی طرف سے معزول کردہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے لیے وکلاء نے ملک گیر مارچ کیا بعدازاں پیپلزپارٹی کی حکومت میں مسلم لیگ ن کے قائدمیاں نواز شریف نے عدلیہ بحالی کے لیے لاہور سے لانگ مارچ کااعلان کیا جس کے نتیجہ میں حکومت نے افتخار محمد چوہدری کو ان کے منصب پر بحال کردیا دسمبر 2013میں اچانک ملکی منظر نامے پر ڈاکٹر طاہر القادری نمودار ہوئے جو طویل عرصہ سے بیرون ملک مقیم تھے انہوں نے لاہور سے اسلام آباد کی طرف مارچ کرکے اسلام آباد میں دھرنا بھی دیا مگر پھر حکومت نے ان کو دھرنا ختم کرنے پر آماد ہ کرلیا اگلے سال اگست میں پی ٹی آئی نے اپنے طویل ترین دھرنے کاآغاز لاہور سے اسلام آباد مارچ کے بعد کیا126دن پر مشتمل دھرنا سانحہ آرمی پبلک سکول کے بعد ختم کردیاگیا 2018میں پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہوئی تو اکتوبر 2019میں جے یو آئی نے کراچی سے لانگ مارچ کاآغاز کیا آزاد ی مارچ کو بعدازاں اسلام آباد میں آزادی دھرنے میں تبدیل کردیاگیا اس موقع پر جے یو آئی کو عملی طورپر دونوں بڑی اتحادی جماعتوں نے تنہا چھوڑ دیاتھا پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف رواں برس اٹھائیس فروری کو پی پی پی نے کراچی سے لانگ مارچ کا آغاز کیا چونتیس شہروں سے ہوتا ہوا یہ مارچ اسلام آبادمیں اختتام پذیر ہوا اسی دوران اسلام آباد میں جے یو آئی اور ن لیگ نے بھی احتجاج کیا اور اب ایک بارپھر پی ٹی آئی لانگ مارچ کرنے جارہی ہے اسے اپنے احتجاج کو ہرصورت پرامن رکھنے کی ذمہ داری پور ی کرنی ہوگی لانگ مارچ اگر پرامن رہتاہے تو وفاقی حکومت کو بھی طاقت کے بے جا استعمال سے گریز کرناہوگا دعا کی جانی چاہئے کہ مارچ کے نتیجہ میں جمہوریت کو کسی قسم کانقصان نہ پہنچ سکے وگرنہ سیاستدانوں کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا۔