بہتری کی گنجائش موجود ہے جس پر تھوڑی سی توجہ سے نظام کے مقابلے نظام اور اصلاحات کی راہ میں حائل رکاوٹیں باآسانی دور ہو سکتی ہیں۔علاقائی ہیلتھ ڈائریکٹوریٹس‘ کے لئے نگرانوں (ریجنل ڈائریکٹرز) کا تعین تو کر دیا گیا ہے لیکن مالاکنڈ‘ ایبٹ آباد‘ ڈیرہ اسماعیل خان اور خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع (ساؤتھ ریجن) میں یہ ’علاقائی ہیلتھ ڈائریکٹوریٹس‘ تاحال فعال نہیں ہو سکے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ ’علاقائی ہیلتھ ڈائریکٹوریٹس‘ کے قیام سے علاج و صحت کی دیکھ بھال و سہولیات میں توسیع کی راہ ہموار ہونا تھی۔’علاقائی ہیلتھ ڈائریکٹوریٹس‘ کے لئے تعیناتیوں کا اعلان ’اکتوبر دوہزاراکیس‘ میں کیا گیا تھا تاکہ مقامی طور پر محکمے کے مالی اور انتظامی معاملات کو سنبھالنے کے ذریعے ڈائریکٹوریٹ جنرل (ہیلتھ سروسز) پر کام کے بوجھ کم کیا جا سکے اور علاقائی سطح کے فیصلے علاقائی سطح پر ہی کر لئے جائیں تاہم اس کے باوجود اِن ڈائریکٹوریٹس نے تاحال کام شروع نہیں کیا۔ جنوبی علاقہ کے لئے ’آر ڈی‘ کا عہدہ اگست کے اوائل میں عہدے دار کے ریٹائر ہونے کی وجہ سے خالی تھا۔ ملازمین کے خلاف تادیبی کاروائی‘ تعمیرومرمت کے کام کاج اور ادویات کی فراہمی سے متعلق جملہ امور ’ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز (ڈی جی ایچ ایس)‘ پشاور میں بھیجے جاتے ہیں جس سے فیصلہ سازی میں غیرضروری تاخیر کے باعث کارکردگی متاثر ہو رہی ہے۔ حکام کا کہنا ہے مذکورہ نظام (علاقائی ہیلتھ ڈائریکٹوریٹس) آغاز ِسفر میں کامیاب رہا لیکن ’لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2002ء‘ کے بعد اسے ختم کر دیا گیا تھا۔ ذہن نشین رہے کہ ڈائریکٹوریٹ ڈویژنل سطح پر کام کرتے ہیں‘ جو اپنے اپنے علاقوں میں معاملات کو سنبھالتے ہیں۔ ’علاقائی ہیلتھ ڈائریکٹوریٹس‘ کو ان کی شرائط کے مطابق متعلقہ علاقوں میں بنیادی اور ثانوی صحت کی سہولیات کے تمام انتظامی امور کو سنبھالنے کا کام سونپا گیا تھا اور ان کے پاس گریڈ ایک سے ملازمین کے تبادلوں‘ پوسٹنگ اور چھٹیوں سے متعلق معاملات کو سنبھالنے کے اختیارات بھی تھے۔ گریڈ سولہ کے ملازمین‘ ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسران اور ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹس کی تعیناتی اور تبادلے کے لئے سفارشات بھی ’علاقائی ہیلتھ ڈائریکٹوریٹس‘ ہی نے دینا تھیں۔ ریجنل ڈائریکٹرز خطے میں اپنے دفاتر کے اخراجات کی تنخواہ اور غیر تنخواہ دونوں حصوں کے لئے ڈرائنگ اور ڈسبرسمنٹ آفیسر بھی مقرر کئے گئے تھے۔ ’علاقائی ہیلتھ ڈائریکٹرز‘کا مقصد پشاور کے مرکزی دفتر پر کام کا بوجھ کم کرنا تھا تاکہ مجموعی معاملات پر توجہ مرکوز کی جا سکے‘ جنہیں وقت ضائع لئے بغیر مقامی سطح پر باآسانی حل کیا جا سکتا ہے۔ ریجنل ڈائریکٹرز ’میڈیکل سپرنٹنڈنٹس‘ اور ڈی ایچ اوز کی کارکردگی کی جانچ کی رپورٹوں کے لئے رپورٹنگ آفیسر بھی مقرر کئے گئے تھے۔ علاقائی ڈائریکٹوریٹ کو محکمہئ صحت کے صوبائی نمائندے کی حیثیت سے علاقائی اور ضلعی انتظامیہ اور متعلقہ محکموں کے ساتھ روابط برقرار رکھنے کے ساتھ بیماریوں سے بچاؤ کے پروگراموں کی نگرانی کرنا ہوتی ہے لیکن چونکہ ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسیز پر کام کا زیادہ بوجھ ہوتا ہے اِس لئے ریجنل ڈائریکٹرز (آر ڈیز) کو مقامی طور پر معاملات حل کرنا تھے۔ ریجنل ڈائریکٹرز کے لئے سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے بیماریوں کے پھیلنے‘ صحت عامہ کے مسائل اور قدرتی آفات کے حوالے سے محکمہ صحت کے ردعمل کی رفتار متاثر ہوتی ہے۔ خوش آئند ہے کہ سیکرٹری صحت چاہتے ہیں کہ وہ سیکرٹریٹ اور ڈی جی ایچ ایس پالیسی کے معاملات پر توجہ دیں اور اس کے لئے ’ریجنل ڈائریکٹرز‘ کو الگ بجٹ دیا گیا ہے جس کے استعمال کا ڈائریکٹرز کو اختیار بھی حاصل ہے لیکن ایک سال گزرنے کے باوجود بھی ’ہیلتھ ڈائریکٹرز‘ کا نظام چار خطوں (مالاکنڈ‘ ایبٹ آباد‘ ڈیرہ اسماعیل خان اور جنوبی علاقوں) میں صحت عامہ کی سہولیات کی ہموار فراہمی نہیں کر رہاجس کی کمی محسوس کی جارہی ہے۔