پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہو گئے ہیں۔ ماہرین جہاں اس کمی کے اسباب پر بحث کر رہے ہیں، وہیں پر وہ خبردار بھی کر رہے ہیں کہ اگر فوری طور پرموثر پالیسی نہ اپنائی گئی تو ملکی معیشت کو زبردست نقصان پہنچ سکتا ہے۔ماہرین کا خیال ہے کہ اس سے نہ صرف ادائیگیوں کا توازن بری طرح متاثر ہو سکتا ہے بلکہ سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچ سکتی ہے، جس کے پاکستانی معیشت پر بہت ہی منفی اثرات ہوں گے۔ کئی حلقے وزیر اعظم کے دورہ سعودی عرب کو اہم گردان رہے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ زر مبادلہ کے ذخائر میں کمی کا مقابلہ کرنے میں سعودی عرب کی معاونت نتیجہ خیز ثابت ہوسکتی ہے۔
مالیاتی امور کے ماہر ین کے مطابق دو طرفہ اور کئی طرف محاذ پر ڈالر کے بہا ؤمیں کمی آئی ہے، جس سے ڈالر کے ملکی ذخائر بھی کم ہوئے ہیں۔جون کے آخر سے لے کر اب تک 2.2 بلین ڈالر کم ہوئے ہیں اور اس وقت ہمارے پاس 7.6 بلین ڈالر موجود ہیں، جن سے ہم صرف قریب چالیس دن تک کی درآمدات کے لیے ادائیگیاں کر سکتے ہیں۔ دراصل ہمارے پاس یہ ذخائر کم از کم تین ماہ تک کی درآمدات کی ادائیگیوں کے لیے ہونا چاہئیں۔
پاکستانی تارکین وطن نے بھی کم پیسے بھیجے ہیں، جو کمی کا ایک اور سبب ہے۔مالی سال دو ہزار اکیس بائیس میں انہوں نے 32.9 بلین ڈالر بھیجے تھے جب کہ موجودہ سال کی پہلی سہ ماہی میں ان رقوم میں چھ فیصد کمی ہوئی۔ براہ راست بیرونی سرمایہ کاری میں بھی اس سال کی پہلی سہ ماہی میں 62 فیصد کمی ہوئی۔ تو یہ پہلو بھی ان ذخائر میں کمی کے بڑے اسباب میں شامل ہیں۔مالیاتی امور پر قریب سے نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ قرضوں کی ادائیگی کی وجہ سے بھی زر مبادلہ کے ذخائر میں کمی ہوئی ہے۔ اورپرتعیش اشیا ء کی درآمد اس کمی کے مسئلے کو مزید سنگین بنا رہی ہے۔ ماہرین کا مشہورہ ہے کہ زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافے کیلئے پاکستان کو امریکی ڈالر میں خرید و فروخت کی اپنی روایت توڑنا ہو گی۔،کئی ممالک پاکستان کے ساتھ مقامی کرنسی میں تجارت کرنے پر تیار ہیں۔ روس مقامی کرنسی میں بھی پاکستان کے ساتھ تجارت پر آمادہ ہے اور بارٹر ٹریڈ بھی کر سکتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ جہاں ہم ڈالر کے بغیر تجارت کر سکتے ہیں، وہاں ہم ایسا ہی کریں تاکہ ہمارے ہاں زر مبادلہ کے ذخائر کم نہ ہوں۔کئی ماہرین کا خیال ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پاکستان میں سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ بیرونی سر مایہ کاری کی صورت میں ان ذخائر میں کمی کو کم کیا جا سکتا ہے۔ یہاں یہ امر خوش آئند ہے کہ حکومت دوطرفہ اور کئی طرفہ ایجنسیوں سے مالی مدد لینے کے علاوہ دوست ممالک جیسے کہ سعودی عرب، چین، متحدہ عرب امارات وغیرہ سے بیرونی سرمایہ کاری کی درخواست بھی کر سکتی ہے۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی کمرشل بینکوں سے بھی مدد لی جا سکتی ہے۔
زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ اسلئے بھی ضروری ہے کہ ملک پہلے ہی سیلابوں سے ہونے والے 30 بلین ڈالر سے زیادہ کے نقصانات کے باعث مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔ سیلاب کی تباہ کاریوں کی وجہ سے مزید 90 لاکھ سے زائد شہری خط غربت سے نیچے جانے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ سیلابوں نے گندم، کپاس، چاول اور سبزیوں سمیت کئی طرح کی فصلوں کو تباہ کیا ہے، جو اب ہمیں درآمد کرنا پڑیں گی اور اس درآمد کے لئے بھی کافی زرمبادلہ موجود ہونا ضروری ہے۔موجودہ مالی سال کے دوران پاکستان کو اپنی مالیاتی ضروریات پورا کرنے کے لیے کم از کم 32 سے 34 بلین ڈالر کی بیرونی فنانسنگ کی ضرورت ہے۔ اور جس طرح حکومت مختلف حوالوں سے اس ضمن میں اقدامات کر رہی ہیں اس سے یہ امید پیدا ہوگئی ہے کہ یہ مسئلہ جلد حل ہو جائیگا۔