پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ (چیئرمین) رمیز راجہ مضبوط اعصاب کے مالک ہیں اور درست انتخاب ثابت ہوئے ہیں۔ اگرچہ کرکٹ بورڈ کے سربراہ کا انتخاب ہمیشہ ہی سے سیاسی منظورنظر افراد میں سے کیا جاتا ہے لیکن رمیز راجہ کا انتخاب شاید ایک ایسی ضرورت کے تحت کیا گیا جو ’کرکٹ بورڈ‘ کو اپنے پاؤں میں کھڑا کرنے کے لئے تھی اور رمیز راجہ اِس میں بڑی حد تک کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔ گزشتہ پندرہ برس میں‘ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے ایک ایسا کارنامہ انجام دیا ہے جس کا کوئی دوسرا کرکٹ بورڈ خواب میں بھی نہیں سوچ سکتا۔ بورڈ آف کنٹرول فار کرکٹ ان انڈیا (بی سی سی آئی) کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کے بغیر مالی طور پر ترقی کرنا ممکن نہیں سمجھا جاتا تھا لیکن اِسے ممکن کر دکھایا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھارتیہ کرکٹ بورڈ ’بی سی سی آئی‘ کے سیکرٹری جے شاہ نے ایک موقع پر پاکستان سے متعلق بیان دیا تو پاکستان نے فوری ردعمل میں اُس سے زیادہ سخت جواب دیا کہ اُنہیں خاموش ہونا پڑا۔
ذہن نشین رہے کہ ’جے شاہ‘ بھارت کے وزیر داخلہ اور وزیر اعظم نریندر مودی کے قریبی ساتھی امیت شاہ کے بیٹے ہیں اُور اِس وجہ سے اُنہیں بھارتی فیصلہ سازوں کی خاص قربت و حمایت حاصل ہے۔ بھارت کی طرف سے یہ اعلان سامنے آیا ہے کہ وہ سال 2023ء میں ہونے والے ’ایشیا کپ‘ نامی کرکٹ مقابلوں کے لئے پاکستان کا دورہ نہیں کرے گا جس پر ’پی سی بی‘ نے برہمی سے جواب دیا لیکن حقیقت میں بھارت کا یہ اعلان ہمارے کرکٹ بورڈ کے فیصلہ سازوں اُور شائقین کے لئے زیادہ حیرت کی بات نہیں ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان سیاسی تعلقات کشیدہ ہیں اُور اگر گزشتہ ڈیڑھ دہائی میں ہونے والی کرکٹ کو دیکھا جائے تو بھارت کی ٹیم کا مجموعی طورپر پاکستان پر پلڑا بھاری رہا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ بھارت کا کرکٹ بورڈ پاکستان کی توہین کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ آخری بار دونوں پڑوسیوں نے دسمبر دوہزارسات میں بھارت میں ٹیسٹ سیریز کھیلی تھی۔
اس کے بعد سے دوہزاربارہ میں بھارت کی میزبانی میں ایک مختصر فارمیٹ کی دو طرفہ سیریز کے علاؤہ‘ دونوں روایتی حریفوں کا خصوصی طور پر کرکٹ ورلڈ کپ جیسے بڑے ٹورنامنٹس میں مقابلہ ہوا ہے۔ مالی طور پر دیکھا جائے تو بھارت کا پاکستان کے ساتھ نہ کھیلنے یا پاکستان نہ آنے کے فیصلے سے قومی کرکٹ ٹیم کی آمدنی متاثر ہوتی ہے۔ بھارت عالمی کرکٹ میں زیادہ آمدنی حاصل کرنے والے ممالک میں شامل ہے اور یہی وجہ ہے کہ کرکٹ کے عالمی فیصلے بھی بھارت کی مرضی سے ہوتے ہیں جبکہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (ICC) بھارت کی مرضی کے خلاف فیصلے نہیں کرتی کیونکہ اِس کی آمدنی کا بڑا حصہ بھارت کے مرہون منت ہے۔ بھارت کے ساتھ کرکٹ کھیلنے کا مطلب آسانی سے حاصل ہونے والی زیادہ آمدنی ہے اُور اِس آمدنی میں اضافے پر ’انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (ICC)‘ کی نظریں ہمیشہ جمی رہتی ہیں۔
ذہن نشین رہے کہ ’آئی سی سی‘ کی کل آمدنی کا ”80 فیصد“ صرف بھارت کرکٹ ٹیم کے مقابلوں سے حاصل ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بھارتی کرکٹ ٹیم اُور اِس کے آفشیلز کو ’آئی سی سی‘ میں خاص اہمیت دی جاتی ہے۔ آئی سی سی کی آمدنی کے 2 بنیادی ذرائع ہیں۔ پہلی آمدنی انٹرنیشنل کرکٹ کونسل ہے۔ آئی سی سی عالمی مقابلوں کا انعقاد کرتا ہے جیسا کہ ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ یا چیمپیئنز ٹرافی کے مقابلے اور اِن مقابلوں کو دیکھنے کے لئے دنیا بھر سے شائقین آتے ہیں۔ اِن مقابلوں کے ٹکٹ‘ اِن کے نشریاتی حقوق اُور مختلف اداروں کی معاونت سے ’آئی سی سی‘ کو ہر سال 3 ارب ڈالر آمدنی ہوتی ہے‘ جسے اپنے انتظامی اخراجات منہا کر کے مختلف ممالک کے کرکٹ بورڈز میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ اِس تقسیم میں اُن ممالک کو زیادہ حصہ ملتا ہے جن کے نشریاتی حقوق سے زیادہ آمدنی ہوتی ہے جیسا کہ بھارت اور آسٹریلیا۔
کرکٹ شائقین کی بڑی تعداد کا تعلق اِنہی دو ممالک (بھارت اور آسٹریلیا) سے ہے۔ سال 2015ء سے 2023ء تک کے لئے ’آئی سی سی‘ نے 7 کرکٹ بورڈز (ممالک) میں مجموعی طور پر 11 کروڑ 70 لاکھ (117 ملین) ڈالر رقم تقسیم کی۔ جبکہ برطانیہ کو 12 کروڑ 70 لاکھ (127ملین) ڈالر اور بھارت کو 37 کروڑ 10 لاکھ (371 ملین) ڈالر ملے۔ بھارت میں کرکٹ کے نشریاتی حقوق ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوتے ہیں۔ حال ہی میں انڈین پریمیئر لیگ (IPL) مقابلوں کے نشریاتی حقوق 6.2 ارب ڈالر میں نیلام ہوئے اُور دنیا میں کھیلوں کے نشریاتی حقوق کی فروخت کے حوالے سے یہ بڑی رقم ہے۔ اِس کے مقابلے اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو 2009ء میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملے کے بعد پاکستان میں عالمی کرکٹ نہیں ہو رہی جس کی وجہ سے کرکٹ سے پاکستان کو آمدنی کی صورت بھارت کی طرح خاطرخواہ فائدہ نہیں ہو رہا۔
پاکستان کی کرکٹ معیار کے لحاظ سے کسی بھی طرح بھارت کے مقابلے کم نہیں لیکن عالمی کرکٹ کونسل سے لیکر نشریاتی حقوق تک بھارت کی حکمت عملی زیادہ مؤثر و کامیاب نظر آتی ہے۔ ملک میں کرکٹ کے فیصلہ سازوں کو اِس سلسلے میں غور کرنا چاہئے کہ جن نشریاتی حقوق کی نیلامی سے بھارت سالانہ اربوں ڈالر کما رہا ہے اُس کا عشرعشیر بھی پاکستان کے حصے میں نہیں آ رہا تو جہاں کرکٹ ٹیم کی کارکردگی بہتر بنانے اُور کرکٹ بورڈ میں سیاسی عمل دخل ختم کرنے کی ضرورت ہے وہیں کرکٹ سے حاصل ہونیو الی آمدنی کے اُن امکانات پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے جن سے بھارت سمیت دنیا کے کئی ممالک بھرپور فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔
اس طرح کرکٹ ایک طرح سے کمائی کا ایسا ذریعہ بنا ہوا ہے جس سے ممالک ایک دوسرے پر دباؤ ڈالنے کا کام لے رہے ہیں اورآئی سی سی ایک طرح سے کھیلوں کے مقابلے منعقد کرنے سے زیادہ کمائی کا ادارہ بنا ہوا ہے تاہم پاکستان کی پوزیشن اب کرکٹ میں ایسی مضبوط ہوگئی ہے کہ کوئی بھی کھیلوں کی تنظیم پاکستان کو نظر انداز کرنے کی جرات نہیں کرسکتی اس لئے تو پی سی بی نے حال ہی میں بی سی سی آئی کے سیکرٹری کو سخت جواب دے کر واضح کیا کہ اگر بھارت کرکٹ میں کوئی مقام رکھتا ہے تو پاکستان بھی اس سے کم نہیں۔