آستانہئ عالیہ حسنیہ قادریہ‘ کوچہ آقا پیر جان رحمتہ اللہ علیہ اندرون یکہ توت گیٹ پشاور کی رونقیں تادیر شاد و آباد (سلامت) رہیں جہاں جشن کے جاری سماں کی مناسبتوں میں پیران ِپیر‘ محبوب سبحانی‘ غوث الاعظم‘ شیخ السید عبدالقادر جیلانی بغدادی رحمتہ اللہ علیہ سے منسوب بڑی گیارہویں شریف (گیارہ ربیع الثانی) کی آمد آمد ہے‘ جس کی تیاریاں یکم ربیع الثانی کے انتظار میں دن گننے والے چاند رات ہی سے شروع کر دیتے ہیں اور سوشل میڈیا پر مبارکبادوں کا تبادلہ گزشتہ کئی دنوں سے جاری ہے‘ پشاور میں یوں تو ”بڑی گیارہویں شریف (ماہئ ربیع الثانی)“ کی مناسبت سے خطبات ِسیرت‘ حمد و نعت اور منقبت کی بابرکت دعائیہ محافل و پرشکوہ اجتماعات کا انعقاد ہوتا ہے تاہم خیبرپختونخوا میں ’گیارہویں شریف‘ کا فقیدالمثال (بڑا) اجتماع ’آستانہ عالیہ حسنیہ قادریہ‘ پر منعقد ہوتا ہے جو گیارہ روز جاری رہنے کے بعد بارہویں ربیع الثانی‘ نماز فجر کی ادائیگی اور قبل ازیں بیعت پر اِختتام پذیر ہوتا ہے اور ہر سال سینکڑوں نئے مرید حلقہ تصوف میں داخل ہوتے ہیں جسکی 4 منزلیں بصورت ”شریعت‘ طریقت‘ معرفت اور حقیقت“ ہیں اِن سب کی بنیادی چیز شریعت ہے اور جو چیز شریعت سے متصادم ہے وہ بلا شک و شبہ غلط ہے‘ شاید ہی ملک کے کسی بھی حصے یا بیرون ملک ’بڑی گیارہویں شریف‘ کے سلسلے میں اِس قدر طویل اور باادب محافل کا اہتمام کیا جاتا ہو یکم سے گیارہ ربیع الثانی ہر (صبح پانچ بجکر تیس منٹ پر) ’آستانہ عالیہ‘ پر نماز فجر کی باجماعت ادائیگی کے ساتھ ’ختم غوثیہ شریف‘ کا انعقاد ہوتا ہے یہ ”ختم شریف“ مخصوص قرآنی اذکار و اوراد اور وظائف کی اجتماعی تکرار یوں تو دیگر مہینوں میں بھی ہوتی ہے لیکن جو روحانیت اور سرور ربیع الثانی میں ختم غوثیہ پڑھنے اور اِسکے اختتام پر دعا میں شرکت کا ہے‘ وہ دلی راحت و سکون کسی دوسرے مہینے اِس درجہ محسوس نہیں ہوتا‘اِس سال (1444ہجری) ربیع الثانی کے چاند کو چار چاند لگانے والی دوسری نسبت بھی یکساں عظیم المرتبت ہے‘ یکم ربیع الثانی سے ہر دن بالترتیب ’گیارہ ربیع الثانی (بڑی گیارہویں شریف) تک جاری ختم غوثیہ کے سلسلے میں آج بروز ہفتہ (2 ربیع الثانی چودہ سو چوالیس ہجری بمطابق انتیس اکتوبر دوہزار بائیس) پیرطریقت‘ رہبرِ شریعت‘ امام الفقرأ‘ ہادی و مہدی‘ قبلہ عالم‘ قبلہ سیّد محمّد امیر شاہ قادری گیلانی المعروف مولوی جی رحمتہ اللہ علیہ کے 18ویں ’عرس مبارک‘ کے دوسرے دن‘
یادآوری کی محافل عقیدت و احترام کے ساتھ منعقد ہو رہی ہیں‘ خاص بات یہ ہے کہ مولوی جیؒ کے ’دست ِحق پرست‘ پر ’سلسلہئ عالیہ قادریہ‘ میں شامل ہونے والے مریدوں کا اظہار ِمسرت و تشکر دیدنی ہے‘ جنکی آنکھوں میں پیران ِپیرؒ سے نسبت کی چمک اور قبلہ مولوی جیؒ سے اظہار ِمحبت آنسوؤں کی صورت چھلک رہا ہے کہ یہ وصل و فصل (قرب و جدائی) کے لمحات وقتی راحت کا باعث ہونے کیساتھ‘ حلاوت ِایمانی کی صورت دائمی تاثیر بھی رکھتے ہیں‘ بقول بیدم شاہ وارثی ”پھر دل میں میرے آئی‘ یادِشاہئ جیلانیؒ: پھرنے لگی آنکھوں میں وہ صورت ِنورانی ؒ …… شاہوں سے بھی اَچھا ہوں‘ کیا جانے کیا‘ کیا ہوں: ہاتھ آئی ہے قسمت سے‘ در کی ترے دربانی“پشاور کی سرتاج روحانی‘ علمی ادبی‘ سیاسی اور سماجی شخصیت مولوی جی رحمتہ اللہ علیہ نے ’13رمضان المبارک 1337ہجری بمطابق 28 اکتوبر 2004ء‘ اِس دار ِفانی سے پردہ فرمایا اور اِن ہجری و عیسوی تاریخوں کی مناسبت سے آپؒ کا ’عرس مبارک‘ سال میں دو مرتبہ منایا جاتا ہے‘ جسکی الگ حکمتوں میں یہ بابرکت پہلو بھی پوشیدہ ہے کہ آپؒ کی یادآوری کا سلسلہ یوں تو ہر دن رہتا ہے لیکن روایتی طور پر سال میں ایک مرتبہ نہیں بلکہ دو مرتبہ آپؒ کے عرس مبارک کے بہانے عقیدت مند فیوض و برکات سمیٹتے ہیں ”یاد اُن کی سرور کی دنیا …… یاد اُن کی شعور کی دنیا“فقہ حنفی (اہل سنت و الجماعت) کے ہاں احادیث کی چھ مستند کتب کے مجموعے کو ”صحاح ستہ“ کہتے ہیں۔ اِن میں صحیح بخاری (اِمام بخاریؒ)‘ صحیح مسلم (اِمام مسلمؒ)‘ جامع ترمذی (اِمام ترمذیؒ)سنن اَبو داؤد (امام اَبو داؤدؒ)‘ سنن نسائی (اِمام نسائیؒ) اور سنن ابنِ ماجہ (اِمام ابنِ ماجہؒ) شامل ہیں۔ حضرت ابو الحسین مسلم بن الحجاج بن مسلم بن ورد بن کوشث القشیری النیساپوری رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی 261 ہجری) کی مرتب کی گئی ’صحیح مسلم‘ میں ساڑھے سات ہزار (بشمول تکرار کے ساتھ) احادیث ِمبارکہ ذخیرہ ہیں اور اِس
مجموعے میں شامل ایک حدیث ِمبارکہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (ترجمہ) ”3 چیزیں جس شخص میں ہوں گی وہ اِن کی وجہ سے ’اِیمان کی حلاوت‘ پائے گا۔ پہلی یہ کہ‘ اللہ اور اُس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اُسے ہر شے سے زیادہ محبوب ہوں گے‘ دوسرا یہ کہ اُسے کسی شخص سے محبت صرف اللہ تعالیٰ کیلئے ہو گی یعنی اُسے دنیا کی کوئی غرض مطلوب نہیں ہو گی اور تیسرا یہ کہ جب اللہ تعالیٰ شان سبحانہ نے اُسے کفر سے نجات دے دی تو پھر دوبارہ کفر کی طرف لوٹنے کو بالکل اُسی طرح ناپسند کریگا‘ جس طرح اِس بات کو ناپسند کرتا ہے کہ اُسے آگ میں پھینک دیا جائے“ مفسرین اِس حدیث شریف کی تفسیر میں کفر سے ایمان کی طرف لوٹنے کی تشریح فی زمانہ ’توبہ کی توفیق‘ سے کرتے ہیں‘ اہل تصوف (بالخصوص سلسلہئ عالیہ قادریہ) کے ہاں اِنہی 3 رہنما اصولوں پر زور دیا جاتا ہے اور پیر و مرشد اِنہی 3 تدریسی پہلوؤں سے مریدوں کی اپنے قول و فعل سے تعلیم و تربیت (تبلیغات) فرماتے ہیں‘ جسے علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے ’مہر و وفا (محبت اور خلوص) اور ’حریم کبریا (عظمت ِخداوند تعالیٰ کا مقام) سے تعبیر کیا ہے ”دلوں کو مرکز ِمہر و وفا کر …… حریم کبریا سے آشنا کر“ آشنائی کا یہ سلسلہئ رشد و ہدایت مولوی جی رحمتہ اللہ علیہ کی نظرکرم و عنایات سے آج بھی بصورت رہنمائی و سرپرستی میں جاری ہے جسکی قیادت خانوادہئ عالیہ (غوث الاعظمؒ) کے چشم و چراغ‘ جانشین و سجادہ نشین سّید نورالحسنین قادری گیلانی المعروف سلطان آغا حفظ اللہ اور آپ علیہ الرحمہ کے فرزند ارجمند شہزادہ غوث الوریٰ سیّد مسعود الزمان گیلانی حفظ اللہ تعالیٰ بہ احسن کر رہے ہیں‘ منجملہ مریدین بدست دعا ہیں کہ اِس خانوادہئ عالیہ کے ہر فرد کی صحت و سلامتی اور بلند درجات کی مزید سربلندی کے ساتھ رب کریم اِس پرفتن و پرفریب‘ دور میں ’سلسلہئ عالیہ حسنیہ قادریہ‘ کے جملہ مریدین (روحانی شاگردوں) اور محبین (محبت و عقیدت مندوں) کی غوث پاک کے گھرانے (در اقدس) سے وابستگی قائم و دائم (سلامت) رکھے اور فیوض و برکات کی بارش کے ساتھ اِس کے سمیٹنے کی ہماری توفیقات دراز فرمائے (آمین) بصورت دیگر (خدانخواستہ) خسارہ ہی خسارہ ہے کہ ”دراز ِدست کو دست عطا کہیں نہ ملا: بخیل ِشہر تھا‘ حاجت روا کہیں نہ ملا …… گرا خود اپنی نظر سے‘ تو پوچھتا پھر کون: خودی گنوائی تو مجھ کو‘ خدا کہیں نہ ملا (جمیل قریشی)“