مایوس کن کارکردگی

ٹی ٹونٹی کے عالمی مقابلے آسٹریلیا میں جاری ہیں گرین شرٹس کا پہلا ٹاکرا روایتی حریف بھارت کے ساتھ تھا۔میچ کا فیصلہ آخری اوور کی آخری گیند پر ہوا اور ہم بھارت سے ہار گئے کرکٹ کے شیدائیوں نے یہ سوچ کر قومی ٹیم کو معاف کیا کہ مقابلہ دل ناتواں نے خوب کیا۔امپائر کے متنازعہ فیصلے نے بھی پاکستان کی شکست میں اہم کردار ادا کیا۔گرین شرٹس کا دوسرا اور اہم میچ زمبابوے کی نسبتاً کمزور ٹیم کے ساتھ تھا۔ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ زمبابوے کو راس نہیں آیا اور اس کی اننگ 130 رنز تک محدود رہی۔قوم کو توقع تھی کہ قومی ٹیم یہ معمولی ہدف دس بارہ اوورز کے اندر حاصل کر لے گی۔ مگرقوم کی امیدوں پر اس وقت پانی پھرگیا جب کپتان بابر اعظم اور ٹی ٹونٹی کے نمبر ون بلے باز رضوان ابتدائی چار پانچ اوورز کے اندر ہی اپنی وکٹیں معمولی باؤلرز کو تھما بیٹھے۔اس کے بعد روایت کے مطابق پاکستانی ٹیم کی وکٹیں خزاں رسیدہ پتوں کی طرح گرتی رہیں اور ہماری ٹیم یہ اہم میچ بھی ایک کمزور ٹیم سے نہ صرف ہار گئی بلکہ ٹورنامنٹ کے اگلے مرحلے تک پہنچنے کے امکانات بھی معدوم ہونے لگے۔ابھی بنگلہ دیش اور جنوبی افریقہ کے ساتھ بھی مقابلہ کرنا ہے۔ہماری ٹیم کی بنیادی کمزوری ہمیشہ بیٹنگ رہی ہے۔رضوان اور بابر کی جوڑی نے اوپننگ کا مسئلہ کسی حد تک حل کرلیا تھا۔مڈل آرڈر میں کوئی قابل اعتماد بلے باز میسر نہ آنے کا مسئلہ کافی پرانا ہے۔جارحانہ بلے بازی کرنے والے فخر زمان، شرجیل، آصف علی، حیدر علی کو ہمارے کوچز نے دفاعی کھیل پر مجبور کرکے ان کے کیرئر کو اپنے ہاتھوں تباہ کردیا۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دفاعی پوزیشن اختیار کرنے والے کبھی فتح یاب نہیں ہوسکتے ہمارے اوپنرز نے بھی دفاعی کھیل اپنا کر ٹیم کو نقصان پہنچایا ہے۔ابتدائی چھ اوورز میں جو ٹیم پچاس رنز بھی نہ بناسکے وہ میچ جیتنے کا استحقاق ہی نہیں رکھتی۔گیند روک کر دس اوورز ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ چار پانچ چوکے چھکے لگا کر ٹیم کو اچھا آغاز فراہم کیا جائے۔ کپتان بابر کا آوٹ آف فارم ہونا ٹیم کے لئے سب سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے۔ایشیا کپ اور ورلڈ کپ میں اب تک بابر کی بلے بازی مایوس کن رہی ہے اوپنرز جب جلدی آوٹ ہوتے ہیں تو ٹیم پر دباؤ پڑتا ہے۔بہتر ہوتا کہ بابر اوپن کرانے کے بجائے تیسرے چوتھے نمبر بیٹنگ کرنے آتے۔محدود اوورز کے میچ میں جارحانہ انداز اپنانے کی روایت سری لنکا کے جے سوریا نے شروع کی تھی اور اپنی ٹیم کو عالمی چیمپئن بنایا تھا۔کرکٹ کو غیر متوقع نتائج کا کھیل کہا جاتا ہے اگر اس بار بھی 1992 کی تاریخ دہرائی گئی تو پاکستان کے لئے موہوم سی امید باقی ہے بصورت دیگر پہلے راونڈ کے اختتام پر قومی ٹیم کو گھر واپسی کا راستہ اختیار کرنا پڑے گا۔کرکٹ شائقین کا کہنا ہے کہ باؤلنگ اور بیٹنگ کے اعتبار سے قومی ٹیم دنیا کی مضبوط ٹیموں میں شامل ہے مگر غلط پلاننگ اور غیر فطری انداز اختیار کرنے کی وجہ سے ٹیم اکثر ناکام ہوتی ہے۔زمبابوے جیسی کمزور ٹیم کے ہاتھوں شکست کے بعد کرکٹ کے کرتا دھرتاؤں کو اپنی پالیسیوں،طرز عمل اور رویوں میں تبدیلی لانی ہوگی۔