حالیہ سیلاب سے پاکستان کی معیشت بالعموم اور زرعی معیشت بالخصوص متاثر ہے اور تاحال تباہ کن سیلاب کے اثرات سے نکلنے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے۔ اِس پوری صورتحال کا منفی اثر ہی ہے کہ پاکستان ’دیوالیہ‘ کے قریب جا پہنچا ہے اُور وفاقی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اُس نے ملک کو دیوالیہ (ڈیفالٹ) ہونے سے بچا لیا ہے اُور اگر ایسا ہے بھی تو یہ وقتی کامیابی اُس وقت تک مستقل شکل اختیار نہیں کرے گی جب تک زراعت کو اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں کر دیا جاتا۔ ورلڈ بینک نے حال ہی میں کہا ہے کہ ”پاکستان کو ابھی تک اس سیلاب سے ہوئے نقصانات کا سامنا ہے اور اِسے کم از کم 32ارب ڈالر کے زرعی نقصانات سے نکلنے کے لئے عالمی امداد کی ضرورت ہے۔“ بین الاقوامی قرض دینے والے ادارے (ایجنسیوں) کی طرف سے بھی نظرثانی شدہ نقصانات کے تخمینے سامنے آئے ہیں اور اگر اِن سبھی زرعی نقصانات پر توجہ دی جائے اور پاکستان اپنے وسائل سے معیشت و زراعت کو بحال کرنے کی کوشش کرے تو اِس کے لئے دہائیوں کی محنت درکار ہو گی۔ لاہور سکول آف اکنامکس کے انوویشن اینڈ ٹیکنالوجی سینٹر کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مالی سال 2022-23ء کے دوران پاکستان کی کل خام آمدنی (جی ڈی پی) کی شرح نمو 2.38فیصد رہے گی۔ رپورٹ کے مطابق جولائی سے ستمبر 2022ء تک مالی سال کی پہلی سہ ماہی (فرسٹ کواٹر) کے دوران معمولات زندگی‘ معاش اور آمدنی کو سیلاب سے ہونے والے نقصانات نے تباہ کن نقصان پہنچایا ہے اور جی ڈی پی کی شرح نمو کا تخمینہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ’اکتوبر 2022ء‘ میں لگائے گئے تخمینے کا بیان ہے جس میں جی ڈی پی کی شرح نمو 2 فیصد ہونے کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔ اِس سلسلے میں دو انتباہات جاری کئے جن کے مطابق زراعت اور غیر زراعت پر سیلاب کے مجموعی اثرات کا تخمینہ 11.7 ارب ڈالر ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ حکومت کو قومی پیداوار میں کمی کا سامنا ہے جس کے خسارے کا تخمینہ کم سے کم بارہ ارب ڈالر ہے۔ زراعت کے نقصانات کی وضاحت کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سیلاب کا بڑا اثر خریف کی فصل پر پڑا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کپاس کا دو تہائی حصہ پنجاب میں اور تیسرا حصہ سندھ میں ہے جو سیلاب سے متاثر ہوا ہے۔ تفصیلات کے مطابق کپاس کی فصل سات ملین ٹن یعنی پینتالیس فیصد تباہ ہوئی اور کپاس کی پیداوار کا یہ نقصان 3.1ملین ٹن ہے جو غیرمعمولی ہے کیونکہ ملک کی کل پیداوار میں ’کپاس کا حصہ‘ صفر اعشاریہ چھ فیصد ہے۔ پاکستانی معیشت کی کل ’جی ڈی پی‘ کے بارے میں آئی ایم ایف نے 2021ء میں کہا تھا کہ اِس کا حجم 347 ارب ڈالر ہے جس میں کپاس کی فصل کا حصہ 2.08 ارب ڈالر ہے۔ اسی طرح پنجاب میں چاول کا پچپن فیصد حصہ‘ سندھ و بلوچستان میں پنتیس فیصد حصہ اور خیبرپختونخوا میں دس فیصد حصہ متاثر ہوا ہے۔ چاول کی کل 8.4 ملین ٹن فصل کا 31فیصد نقصان مجموعی طور پر دواعشاریہ چھ ملین ٹن کا خسارہ ہے یعنی 0.75 ارب ڈالر ہے۔ اِسی طرح گنے کا پنجاب میں دو تہائی حصہ‘ سندھ میں ایک چوتھائی حصہ‘ خیبرپختونخوا میں آٹھ فیصد اور بلوچستان میں ایک فیصد حصہ تباہ ہوا ہے۔ اکیاسی ملین ٹن گنے کی کل فصل کے سات فیصد کا پیداواری نقصان 57 لاکھ ٹن بنتا ہے۔ اِسی طرح سیلاب سے مرنے والے مال مویشیوں کا نقصان بھی صفر اعشاریہ دو ارب ڈالر ہے۔ رپورٹ میں تین اعشاریہ صفر چار ارب ڈالر مالیت کی معمولی فصلوں کے نقصانات کا ذکر بھی کیا گیا ہے‘ جس سے زراعت میں تقریباً پانچ ارب ڈالر کے نقصان کی مجموعی مالیت بتائی گئی ہے۔ رپورٹ میں یہ پیش گوئی کی گئی ہے کہ زرعی پیداوار میں ہونے والا نقصانات اس پیداوار کی پروسیسنگ میں اضافی قدر میں ہونے والے نقصان کے برابر ہوگا لہذا‘ اگر کپاس کی فصل میں پیداوار میں پنتالیس فیصد کا نقصان ہوا ہے‘ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کاٹن جننگ کی قدر میں اضافے کے لئے پنتالیس فیصد کم روئی دستیاب ہوگی‘ اس اندازے کے مطابق کپاس کی پیداوار میں کمی سے روئی کی پیداوار میں صفر اعشاریہ پینسٹھ ارب ڈالر کی پیداوار متاثر ہوگی اُور اس کا براہ راست اثر ٹیکسٹائل کی صنعت پر پڑے گا جس کا مجموعی نقصان مالی سال کے اختتام پر 6.2 ارب ڈالر یا اِس سے زیادہ رہے گا۔سیلاب سے متاثرہ زرعی معیشت و معاشرت کو بحال کرنے کے لئے خوراک‘ زراعت‘ لائیو سٹاک اور ماہی پروری سے متعلق قائم قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے اعلان کیا ہے کہ سیلاب زدہ علاقوں میں کسانوں میں گندم کے بیجوں کی مفت تقسیم دس نومبر سے شروع ہوگی۔ کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے فوڈ سیکیورٹی کے وزیر طارق بشیر چیمہ نے کہا کہ ”سیلاب سے متاثرہ کسانوں میں مفت بیج فراہم کرنے اور تقسیم کرنے کے لئے ایک موبائل فون ایپ بھی لانچ کی گئی ہے۔ جس کے استعمال سے مستقبل میں کسانوں کو براہ راست سبسڈی فراہم کی جائے گی۔ فصل کا شعبہ مویشیوں کے بعد دوسرا اہم شعبہ ہے اور سندھ و بلوچستان میں دیہی آبادی کے لئے یہی واحد ذریعہ معاش بھی ہے۔ پنجاب یا سندھ میں کاشت کی جانے والی بڑی فصلوں کے برعکس‘ بلوچستان کے کسان بنیادی طور پر سبزی اور باغات کی پیداوار میں مصروف ہیں۔ مذکورہ قائمہ کمیٹی کو ’نیشنل فوڈ سیکیورٹی‘ کے حوالے سے دی گئی بریفنگ میں بتایا گیا کہ ”پاکستان کے پاس گندم کے وافر ذخائر موجود ہیں اور سرکاری گوداموں میں گندم ضرورت کے ذخیرہ ہے۔“ ایک ایسی صورتحال جس میں گندم کی درآمد کی اجازت بھی دیدی گئی ہے اور سیلاب و بارشوں کی وجہ سے‘ ہنگامی حالت بھی نافذ ہے تو وقت ہے کہ زیادہ سے زیادہ توجہ زراعت کی بحالی اُور کاشتکاروں کو متبادل جگہوں پر قابل کاشت اراضی فراہم کر کے اِس مشکل وقت سے نکلا جائے۔ اگر پاکستان کے فیصلہ ساز عالمی امداد کا انتظار کرتے رہیں گے تو زرعی معیشت کی بحالی زیادہ مشکل ہو جائے گی۔ سمجھنا ہوگا کہ پاکستان کی غذائی خودکفالت اور عوام کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے دستیاب وسائل بروئے کار لائے جائیں۔