انتہائی غیرمعمولی پیشرفت ہے کہ صوابی کے مرکزی اور اِس ضلع کے گردونواحی علاقے جو ’تمباکو (ٹوبیکو)‘ کی کاشت کے لئے اپنی موزوں آب و ہوا اور زرخیز مٹی کے لئے خاص شہرت رکھتے ہیں اور یہاں کاشت کیا جانے والا تمباکو نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک بھی اپنے اعلیٰ معیار کی وجہ سے پسند کیا جاتا ہے لیکن صوابی کے کاشتکاروں کی ایک تعداد نے‘ ایک مرتبہ پھر اعلان کیا ہے کہ وہ اِس سال ’تمباکو‘ کی بجائے دیگر فصل کاشت کریں گے جبکہ اِن کی نسل در نسل مہارت تمباکو کی کاشت اور اِسے بھٹیوں میں خشک کرنے کی ہے‘ جس سے علاقے میں ہزاروں افراد کا روزگار بھی وابستہ ہے۔ کاشتکاروں کے حالیہ اجلاس (اٹھائیس اکتوبر دوہزاربائیس) میں ضلع صوابی کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے کاشتکار شریک ہوئے اور اجلاس کے فیصلوں سے متعلق مشترکہ بیان میں ’کاشتکاروں کو درپیش مالی مسائل کا ذکر کیا گیا جس میں فصل کے پیداواری اخراجات میں اضافہ جبکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کی وجہ سے فی ایکڑ فصل میں کمی یا اِس کا معیار متاثر ہونے سے متعلق امور بھی ہیں۔
کاشتکاروں کے اِس نمائندہ اجلاس میں ہوئی مشاورت کے اختتام پر کہا گیا کہ ”رواں سال تمباکو کی خریدار کمپنیوں اور تمباکو کے تاجروں کی عدم توجہی کی وجہ سے کاشتکار تمباکو کی بجائے آلو کی کاشت کریں گے اور یہ فیصلہ بطور احتجاج نہیں بلکہ بہ اَمر مجبوری کیا جا رہا ہے۔ تمباکو کاشتکاروں نے اچھی فصل اور اچھی قیمت کی اُمید پر مزید مالی نقصان برداشت کرنے سے انکار کر دیا اور توجہ دلائی ہے کہ حکومت جو کہ تمباکو کی فصل اور تمباکو سے بننے والی مصنوعات سے سالانہ اربوں روپے آمدنی حاصل کرتی ہے لیکن اِس کا عشر عشیر بھی کاشتکاروں کو منتقل نہیں کیا جاتا۔ ”تمباکو گروورز ایسوسی ایشن پاکستان“ نے اِس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے کہ اِس سال تمباکو کی فصل جیسے تیسے تیار کرنے کے بعد اب صورتحال یہ درپیش ہے کہ تمباکو خریدنے والی کمپنیاں فصل خریدنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ضلع صوابی کے تمباکو کاشتکار پہلی مرتبہ احتجاج نہیں کر رہے بلکہ رواں برس کے آغاز (جنوری دوہزاربائیس) میں بھی کاشتکاروں کی ایک بڑی تعداد نے تمباکو کی لگی ہوئی فصل (نرسریوں) کو تباہ کر دیا تھا جبکہ زیادہ تر نے اپنی زمینوں پر تمباکو کی بجائے دیگر فصلیں کاشت کرنے کا اعلان کیا کیونکہ خیبرپختونخوا کی ”نام نہاد نقد فصل (تمباکو)“ منافع بخش فصل نہیں رہی اور کاشتکار اِس کے خلاف مہم جاری کئے ہوئے ہیں۔
تمباکو کی کاشت کے خلاف مہم میں رضاکارانہ طور پر تمباکو نرسریاں تباہ کی گئیں جبکہ تمباکو کی کاشتکاری کے لئے موزوں علاقوں میں گندم‘ گنا‘ آلو‘ لہسن اور دیگر فصلیں کاشت کی گئیں۔ تمباکو کے کاشتکاروں نے حکومت اور تمباکو کمپنیوں کو 10نکاتی مطالبات (چارٹر آف ڈیمانڈ) پیش کر رکھا ہے۔ جس میں یہ مطالبہ بھی شامل ہے کہ قانون سازی کے ذریعے تمباکو کو فصل کا درجہ دیا جائے‘ اس کی قیمت مقرر کی جائے۔ کیڑے مار ادویات‘ کھادوں‘ بیجوں اور اس سے متعلقہ اخراجات کی موجودہ بڑھی ہوئی قیمتوں کے تناسب سے‘ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (ایف ای ڈی) میں دس فیصد حصہ کاشتکاروں کو دیا جائے اور اِس سے تمباکو کے کاشتکاروں کی فلاح و بہبود اور تمباکو اُگانے والے علاقوں میں تعمیروترقی کی جائے۔ ماضی کی طرح تمباکو کی خریداری کے مراکز فعال کئے جائیں۔ تمباکو اُگانے والے علاقوں اور تمباکو سے متعلقہ صنعتوں کو خیبرپختونخوا سے آزاد کشمیر اور دیگر صوبوں میں منتقل کرنے سے روکنے کے لئے حکمت عملی (پالیسی) وضع کی جائے۔ کاشتکاروں نے حکومت سے مطالبہ بھی کیا کہ تمباکو کی بھٹیوں کی رجسٹریشن کی جائے اور دوہزاراکیس میں تمباکو کی منڈی میں جو بحران آیا تھا اُس کی وجوہات اور محرکات بارے تحقیقات کی جائیں۔ کاشتکار رہنماؤں کے خلاف دائر مقدمات واپس لئے جائیں۔
کاشتکاروں کے پاس گوداموں میں پڑے تمباکو کا سارا ذخیرہ خریدا جائے‘ کارپوریٹ سماجی ذمہ داری کے تحت کاشتکاروں کی بہبود اور تمباکو کی کاشت والے علاقوں میں ترقیاتی فنڈز خرچ کئے جائیں۔ کسانوں کا طویل عرصے سے مطالبہ اور شکایت رہی ہے کہ حکومت تمباکو کاشتکاروں کی بجائے ’ملٹی نیشنل کمپنیوں کو سہولیات اور مراعات دیتی ہے‘ جن میں عملے اور ان کے اہل خانہ کے لئے تنخواہیں‘ صحت اور رہائشی سہولیات شامل ہیں لیکن خون پسینہ ایک کرنے والے محنت مزدور کسانوں کو حکومت سہولیات نہیں دیتی اور نہ ہی کاشتکاروں کے مرکزی کردار و اہمیت کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان میں ہونے والی تمباکو کی کل کاشت (پیداوار) کا 80فیصد حصہ خیبرپختونخوا میں ہوتا ہے۔ اسی طرح تمباکو کی مصنوعات سے وفاقی حکومت کو سالانہ 135ارب روپے ملتا ہے جبکہ 98 کروڑ (980ملین) روپے ’تمباکو ڈویلپمنٹ سیس‘ کی شکل میں صوبائی خزانے میں جمع ہوتے ہیں۔تمباکو کی پیداوار کے لئے موزوں ترین ضلع صوابی کی آب و ہوا ’آلو کی کاشت‘ کے لئے بھی یکساں موزوں بتائی جا رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ نمائندہ تنظیم کی جانب سے کسانوں کو آئندہ تمباکو کی بجائے آلو کاشت کرنے کا لقمہ دیا جا رہا ہے۔
اگرچہ اِس تجویز میں زرعی ماہرین کی رائے شامل نہیں اور نہ ہی تمباکو کی فصل اور اِس کی خریدوفروخت سے متعلق حکومتی ادارے کا ردعمل تاحال سامنے آیا ہے لیکن یقینی بات ہے کہ تمباکو کی کاشتکاری کم ہوئی تو یہ کسی بھی فریق کے مسئلے کا حل نہیں بلکہ پہلے سے موجود مسائل کی شدت میں اضافے کا باعث ہوگا۔ خیبرپختونخوا میں غذائی خودکفالت کے لئے زرعی اجناس کی اہمیت سے انکار نہیں اور سبزی کی بلند قیمتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کاشتکاروں کی بڑی تعداد اِس جانب راغب ہو رہی ہے تاہم مسئلہ اُس وقت پیش آتا ہے جب بیک وقت کوئی ایک سبزی بہت سے علاقوں سے سبزی منڈیوں تک پہنچتی ہے اور اُس وقت سبزی کی قیمت کو اعتدال پر رکھنا ممکن نہیں رہتا جس کی وجہ سے کاشتکاروں کو مالی نقصانات ہوتے ہیں اور کسی فصل کے کل اخراجات تو بہت دور کی بات‘ فصل کو منڈی تک لیجانے کے اخراجات بھی نہیں ملتے! تمباکو کی کاشتکاری کم ہونے سے دہائیوں سے قائم معاشی و صنعتی نظام متاثر ہوگا‘ جس پر ہزاروں کی تعداد میں مقامی افراد کے روزگار کا انحصار ہے اور اِسی کے ذریعے مقامی چھوٹی صنعتوں کا پہیہ بھی چل رہا ہے۔
لائق توجہ کسانوں کا یہ دعویٰ ہے کیا کہ تمباکو سے آلو کی کاشت کی طرف منتقل ہونے کی وجوہات میں ملٹی نیشنل اور نیشنل کمپنیوں کا ’مخالفانہ رویہ‘ پاکستان ٹوبیکو بورڈ کی جانب سے اپنا کردار ادا کرنے میں ناکامی‘ وفاقی حکومت کی جانب سے تمباکو پر 390روپے فی کلو گرام ٹیکس عائد کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں اور یہ سبھی مسائل بات چیت سے باآسانی حل ہو سکتے ہیں۔ تمباکو کے کاشتکار اور کسان چاہتے ہیں کہ متعلقہ حکومتی اِدارے اُن کی کمزور مالی حیثیت اور فصل کے بڑھتے ہوئے اخراجات کا ادراک کریں۔ صوابی میں پہلے بھی آلو کی کاشت ہوتی رہی ہے لیکن اِس مرتبہ زیرکاشت رقبے میں دوگنا اضافے کا فیصلہ کیا گیا ہے اُور بقول نمائندہ تنظیم اگر آلو کی زیادہ بڑے پیمانے پر کاشت کا تجربہ کامیاب ہوا‘ تو اِس سے تمباکو کے کاشتکاروں کو مستقبل میں مزید زمینوں پر آلو کاشت کرنے کی ترغیب ملے گی۔ مطالبات جائز ہیں اور جائز طریقے سے حل ہونے چاہیں۔ تمباکو کے کاشتکاروں کے تحفظات‘ خدشات‘ مسائل‘ مہنگائی‘ کیڑے مار ادویات اور کھاد کی بڑھتی ہوئی قیمتوں زمینی حقائق ہیں جن کا کماحقہ ادراک کرنے کے لئے وفاقی و صوبائی حکومتوں‘ تمباکو خریدنے والی کمپنیوں‘ تمباکو کے تاجروں اور پاکستان ٹوبیکو بورڈ کے مل بیٹھنے سے درمیانی راستہ نکالا جا سکتا ہے جو کاشتکاروں کے مسائل کا تسلی بخش حل پر مبنی ہونا چاہئے۔