عالمی ادارہ صحت(ڈبلیو ایچ او)کے مطابق پاکستان میں پانچ سال یا اس سے کم عمر کے 40 فیصد سے زیادہ بچے نشوونما رکنے (اسٹنٹنگ)کا شکار ہیں جب کہ 25 لاکھ بچوں کو غذائیت کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستان ان اولین ممالک میں سے ایک تھا جس نے پائیدار ترقی کے عالمی اہداف (ایس ڈی جیز) کو اپنایا تاکہ بچپن میں نشوونما کی رکاوٹ میں 40 فیصد کمی اور بچپن میں ضائع ہوجانے کو 5 فیصد سے کم برقرار رکھا جا سکے، تاہم ان اہداف کے حصول کی طرف بہت کم پیش رفت ہوئی ہے۔پاکستان میں ڈبلیو ایچ او کی نمائندہ ڈاکٹر پالیتھا مہیپالا نے ایک کانفرنس کے دوران کہا کہ سہل طرز زندگی اور غیر صحت بخش خوراک کے باعث 10 سال سے کم عمر کے سکول جانے والے بچوں میں سے تقریبا 6-8 فیصد موٹاپے یا زیادہ وزن کا شکار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 'حالیہ برسوں میں ہمارا طرز زندگی بدل گیا ہے اور اس کی وجہ سے ہم زیادہ سے زیادہ غیر متعدی امراض دیکھ رہے ہیں۔'رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی کے زیر اہتمام تیسری بین الاقوامی لائف سٹائل میڈیکل کانفرنس 2022' سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر پالیتھا مہیپالا نے کہا کہ پاکستان میں بیماریوں کے بوجھ کو کم کرنے کیلئے جسمانی سرگرمیوں اور دیگر صحت مند طرز زندگی کے طریقوں کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔جسمانی سرگرمیوں سے متعلق ڈبلیو ایچ او کی عالمی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر حکومتیں اپنی آبادیوں میں زیادہ جسمانی سرگرمی کی حوصلہ افزائی کے لیے فوری اقدام نہیں کرتی ہیں تو 2030 کے آخر تک تقریبا 50 کروڑ افراد دل کی بیماری، موٹاپے، ذیابیطس، یا دیگر غیر متعدی امراض(این سی ڈی)پیدا کریں گے جو جسمانی غیر فعالیت کی وجہ سے ہوں گے، جن پر سالانہ 27 ارب ڈالر لاگت آئے گی۔
دنیا بھر میں سالانہ 5 کروڑ 50 لاکھ اموات ہوتی ہیں، جن میں سے 4 کروڑ 10 لاکھ یا 70 فیصد اموات غیر متعدی بیماریوں کی وجہ سے ہوتی ہیں، جو دراصل طرز زندگی کی بیماریاں ہیں۔ان میں سے صرف دل کی بیماری ہی عالمی سطح پر ایک کروڑ 75 لاکھ اموات کا سبب بنتی ہے، اس طرز زندگی کی بیماری کا سب سے بڑا خطرہ تمباکو نوشی اور اس کے بعد غیر صحت بخش خوراک اور جسمانی عدم فعالیت ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں تقریبا 50 فیصد خواتین یا تو موٹاپے کا شکار ہیں یا زیادہ وزن کا شکار ہیں جبکہ باقی کو غذائیت کی کمی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد کی ایک تحقیق کے مطابق ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے لاہور میں متوقع عمر اسلام آباد کے مقابلے میں 8 سال کم ہے، حکام اور عوام پر زور دیا کہ وہ بیماریوں سے پاک زندگی گزارنے اور ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے کے لیے اقدامات کریں۔