جی ٹی روڈ اورسیاست

کم وبیش پانچ سو برس قبل جس جی ٹی روڈ کی بنیاد برصغیر کے سب سے عظیم اور کامیاب ترین حکمران شیرشاہ سوری نے ڈالی تھی خود ان کے وہم وگمان بھی نہ ہوگاکہ پانچ سو برس بعدبھی یہ شاہراہ اس علاقہ میں حکومتوں کی تبدیلی میں اہم کردار اداکرنے کاباعث بنتی رہے گی پشاورسے کلکتہ تک بننے والی یہ سڑک بعد کے دنوں میں برصغیر کی تجارت کے ساتھ ساتھ اس کی سیاست میں اہم کردارکی حامل بن گئی کابل سے آنے والے لشکرہوں یا پھر ہندوستان سے جانے والے قافلے سب ہی اس عظیم جرنیلی سڑک کو استعمال کرکے اپنی اپنی منز ل حاصل کر لیتے تھے وقت گذرتاگیا انگریزوں کادور آیاتو تب بھی اس سڑک کی اہمیت نہ صرف برقرار رہی بلکہ اس میں مزید اضافہ بھی ہوگیا اورجب ہندوستان تقسیم ہوگیا اور پاکستان معرض وجودمیں آگیا تو جی ٹی روڈ دونوں ممالک کی معیشت،معاشرت میں اور سیاست میں اہم کردار ادا کرنے لگی ان دنوں ملکی سیاست میں پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کاغلغلہ ہے تاہم بہت کم لوگوں کو یہ حقیقت معلوم ہوگی کہ ملک کاسب سے پہلا لانگ مارچ مسلم لیگ کے رہنما خان عبدالقیوم خان نے کیاتھا یہ غالباستمبر 1958کی بات ہے ملک کی سیاست میں افراتفری پورے عروج پر تھی محلاتی سازشوں کادور تھا سکندر مرزا ملک کے صدر اور فیروز خان نون وزیر اعظم تھے اگلے برس مارچ میں ملک کے پہلے عام انتخابات متوقع تھے مگر اس سے قبل ہی الیکشن کو سبوتاژ کرنے کے لیے حکمران خود بھی متحرک ہوچکے تھے سیاستدان بھی نوشتہ دیوار پڑھنے کے لیے تیار نہ تھے قیوم خان اس وقت مسلم لیگ کے مرکزی صدر تھے چنانچہ وہ اسلامستان کانعرہ لے کراٹھے اور تحریک شروع کردی اس مقصد کے لیے انہوں نے سرائے عالمگیر سے گجرات تک 35میل طویل جلوس نکالاتھا اوریہی اس ملک کی تاریخ کاپہلا لانگ مارچ تھا اسی لانگ مارچ کے محض ایک ماہ بعد ملک میں پہلا مارشل لاء نافذ ہواسات اکتوبر کو سکندر مرز ا کے کہنے پر جنرل ایوب خان نے اسمبلی برطرف کر کے ملک کو طویل آمریت کی طرف دھکیل دیا اس حوالہ سے ماضی سے لے کر آج تک تجزیئے ہورہے ہیں تبصر ے ہورہے ہیں مختلف آراء سامنے آرہی ہیں کہ صورت حال  کو اس نہج تک کس نے پہنچایا اور پہلے مارشل لاء کی ذمہ داری آخر کس پر عا ئد ہوتی ہے اس کے لیے اگر ستمبر 1948سے لے کر ستمبر 1958تک کے دس سالہ جمہوری دور کاجائزہ لیاجائے تو صورت حال انتہائی عجیب وغریب دکھائی دے گی اقتدار کے میوزیکل چیئر کے کھیل نے جس طرح ملکی سیاست سے اخلاقیات اور اصولوں کاجنازہ نکال کررکھ دیا تھا اس سے عام آدمی کاجمہوریت پر سے اعتماد تقریبا ًختم ہوچکاتھاچنانچہ جب ملک میں پہلا مارشل لاء لگا تو کہیں سے بھی کوئی بڑی مزاحمت نہیں ہوئی چند نحیف و نزار سے آوازیں اس کے خلاف اٹھیں تاہم جمہور نے اسے انقلاب اکتوبر قراردینا پسند کیا گویا یہ کہاجاسکتاہے کہ سیاستدانوں کی پے درپے غلطیوں نے دوسروں کویہ موقع فراہم کردیاکہ رولز آف گیم پر نہ چلنے والوں کی گیم ہی ختم کردی جائے بہر حال  پہلے مارشل سے قبل ہونے والے ملکی تاریخ کے پہلے لانگ مارچ نے ملکی سیاسی فضاء بدلنے میں اہم کردار ادا کیاتھا پھر تو جی ٹی روڈ احتجاج کرنے والوں کے لئے شاہر اہ جمہوریت کی حیثیت اختیار کرگئی جنرل ایوب خان کے خلاف احتجا ج شروع ہوا تو جی ٹی روڈ پر بڑے بڑے مظاہرے اور احتجاج مارچ ہوتے رہے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف بھی جی ٹی روڈ استعمال ہوئی پھر جب بے نظیر بھٹو نے میاں نوازشریف کی دوسری حکومت کے دوران لانگ مارچ کااعلان کیا تو اس کاروٹ بھی جی ٹی روڈ ہی تھا کیونکہ اس وقت تک موٹروے کادوردور تک نام ونشان بھی نہ تھا ان کالانگ مارچ سولہ جولائی 1993کو اسلام آباد کے باہر پہنچ گیا تھاانہوں نے  لاہور سے سفر کا آغاز کیاتھا تب اس وقت کے صدر غلام اسحق خان اور وزیر اعظم نوازشریف کے درمیان کشیدگی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی قومی اسمبلی اور نواز حکومت اٹھارہ اپریل کو برطرفی کے بعدپچیس مئی کو بحال بھی ہوچکی تھی تاہم دونوں بڑوں کے درمیان خلیج کو پاٹنے کی تمام کوششیں ناکام ہوچکی تھیں ایسے میں حکومت پردباؤ بڑھانے کے لئے پیپلز پارٹی کے پاس اچھاموقع تھا اور ایک منجھے ہوئے سیاسی کھلاڑی کے طورپر بے نظیر بھٹو نے اس موقع سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کرنے کے بعد جی ٹی روڈ کے ذریعہ لانگ مارچ کیااگرچہ سخت ترین انتظامات کی وجہ سے ان کو اسلام آباد میں داخل ہونے سے روک دیاگیاتاہم اسلام آباد کے دروازوں پر دستک نے کام کردکھایا اور اس وقت کے آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ نے اہم کردارادا کرتے ہوئے اگلے عام انتخابات کے فوری انعقاد کو یقینی بنایا کاکڑ فارمولے کے تحت صدر اور وزیر اعظم دونوں فوری طورپرمستعفی ہوگئے اور اکتوبر میں عام انتخابات کااعلان کردیاگیا گویا جی ٹی روڈکایہ دوسر ا مارچ بھی رنگ لاکے رہا۔میاں نواز شریف کو جب ان کی تیسر ی حکومت کے دوران عدالت کی طرف سے نااہل قراردیاگیا تو انہوں نے بھی ووٹ کو عزت دو کابیانیہ دیتے ہوئے لاہور کی طرف سے جی ٹی روڈ کے ذریعہ لانگ مارچ کاآغاز کیا اور یہ کہناغلط نہ ہوگا کہ ان کے بیانیے کو پذیرائی بھی حاصل ہوئی تھی تاہم وہ اپنے بیانیہ کو بوجوہ برقراررکھنے میں ناکام رہے اور اب ایک بارپھر جی ٹی روڈملکی سیاست کامحور بنی ہوئی ہے پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کو شروع ہوئے آج پانچواں دن ہے فریقین کے درمیان اعصابی معرکہ آرائی بھی پورے عروج پرہے لانگ مارچ اسلام آبادتک پہنچنے کے لئے سات دن رکھے گئے تھے تاہم اب یوں محسوس ہوتاہے کہ جمعہ تک لانگ مارچ کا اسلام آباد تک پہنچنا مشکل ہے لگتاہے کہ پی ٹی آئی کے سربراہ اس بار اس مارچ کو خان قیوم اور بے نظیر بھٹو کے لانگ مارچ کی طرح ہرصورت ثمر آور بنانا چاہتے ہیں اوریہی وجہ ہے کہ وہ جلدبازی سے بچنے کی پوری پوری کوشش کررہے ہیں انہیں اچھی طرح علم ہے کہ اسلام آباد تک پہنچنے کے دوران حکومت پر جو دباؤ رکھا جاسکتاہے وہ اسلام آباد پہنچ کر دھرنا دینے سے نہیں رکھاجاسکتا انکی حکمت عملی یہی دکھائی دیتی ہے کہ اسلام آباد پہنچنے سے قبل ہی معاملہ کا کوئی نہ کوئی حل نکل آئے جبکہ حکومت کی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس لانگ مارچ کو بھی بے ثمر رکھاجائے کیونکہ اس بار بھی پی ٹی آئی خالی ہاتھ واپس ہوئی تو حکومت کے لیے مدت پوری کرنے کی راہیں پوری طرح سے کھل جائیں گی۔ سو اعصاب کی اس جنگ میں کامیابی اسی کے قدم چومے گی جو ٹھنڈے دل ودماغ کے ساتھ فیصلو ں کی راہ اختیار کیے رکھے گا۔