گزشتہ اتوار کے دن جو میچز کھیلے گئے ان میں سے اگر چہ اپنا ایک ہی میچ پاکستان کا تھا تاہم باقی کھیلے گئے دو میچز بھی پاکستان کیلئے بہت ہی اہم تھے۔ کسی کو معلوم نہ تھا کہ اس دن کے تینوں میچ سیمی فائنل کی دوڑ میں اتنی اہمیت اختیار کرجائیں گے اور پاکستانی کرکٹ شائقین کو ایک ہی دن میں بنگلہ دیش اور بھارت کی حمایت کرنا ہوگی۔ نہ صرف ٹیم کا نیدرلینڈز کے خلاف میچ ناک آؤٹ میچ بن چکا تھا بلکہ گروپ کا ہر میچ پاکستان کی سیمی فائنل میں رسائی کے امکانات پر اثر انداز ہونے جارہا تھا۔ ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر سے بات دوسری ٹیموں کے نتائج پر آگئی تھی۔پہلے دونوں میچوں کا نتیجہ تو پاکستان کے حق میں ہی گیا لیکن تیسرا میچ نہ صرف بھارتی شائقین بلکہ بے شمار پاکستانی شائقین کے لیے بھی دل توڑ دینے والا ثابت ہوا۔ بھارت کی شکست کے ساتھ ہی پاکستان کی سیمی فائنل میں رسائی کے امکانات تقریبا ًمعدوم ہوچکے ہیں۔ دیکھا جائے توبھارت اور جنوبی افریقہ کے درمیان کھیلا گیا اور یہ اس دن کا سب سے بڑا میچ تھا۔ یہ پوائنٹس ٹیبل پر نمبر ون ہونے کی جنگ جیسا تھا۔ ٹاس روہت شرما نے جیتا اور پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا لیکن جنوبی افریقہ کے فاسٹ باؤلروں نے اس فیصلے کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ باقی باؤلر تو صرف ڈراتے ہی رہے لیکن لنگی نگیڈی نے آتے ہی بھارتی ٹاپ آرڈر کو اڑا کر رکھ دیا۔ ایسا لگنے لگا تھا کہ شاید نیدرلینڈز کی طرح بھارتی ٹیم بھی 100 کا ہندسہ عبور نہیں کرسکے گی لیکن سوریا کمار یادوو نے تن تنہا ٹیم کو ایک مناسب سکور تک پہنچا دیا۔وکٹ پر باؤنس تو تھا، ساتھ میں سوئنگ بھی موجود تھی اور بھارتی فاسٹ باؤلر ہرشدیپ سنگھ نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے پہلے ہی اوور میں کوئنٹن ڈی کوک اور رائلی روسو کو پویلین لوٹا دیا۔ ہرشدیپ سنگھ کے ارادے تو خطرناک تھے لیکن ایڈن مارکرام اور ڈیوڈ ملر نے کسی کی زیادہ نہیں چلنے دی۔مطلوبہ رن ریٹ رفتہ رفتہ بڑھ رہا تھا اور ساتھ ہی بھارتی اور پاکستانی شائقین کی امیدیں بھی، لیکن مارکرام اور ملر نے اننگ کو استحکام دینے کے بعد پلٹا کھایا اور جارحانہ بیٹنگ کا آغاز کردیا۔ اس دوران دونوں بیٹسمینوں کو بھارتی فیلڈرز کی جانب سے بھی مدد ملتی رہی۔ ایک طرف ویراٹ کوہلی مارکرام کا آسان ترین کیچ پکڑنے میں ناکام رہے تو دوسری طرف کپتان روہت شرما کی تھرو وکٹوں پر نہیں لگی۔ اس کے بعد دونوں بیٹسمینوں نے مڑ کر نہیں دیکھا اور سکور کی رفتار بڑھاتے ہی چلے گئے۔ آخر میں جنوبی افریقہ کی 2 وکٹیں تو ضرور گریں لیکن خطرے کی کوئی بات نہیں تھی کیونکہ ڈیوڈ ملر کریز پر موجود تھے اور وہ میچ ختم کرکے ہی واپس لوٹے۔گزشہ کچھ عرصے سے زمبابوے کی ٹیم کی کارکردگی میں کافی نکھار آیا ہے۔ خصوصا ًاس ورلڈ کپ میں ابتدا سے ہی یہ ٹیم بہت اچھی کرکٹ کھیل رہی ہے۔ کوالیفائنگ راؤنڈ میں عمدہ کارکردگی دکھائی اور سپر 12 میں پاکستان کو شکست دی۔ دوسری جانب بنگلہ دیش کی ٹیم نیوزی لینڈ ٹرائی سیریز کے تمام میچوں میں شکست کے علاوہ زمبابوے کے خلاف حالیہ سیریز میں بھی شکست کا سامنا کرچکی تھی۔ تاہم اس میچ میں بنگلہ دیش نے کھیل کے تمام شعبوں میں زمبابوے کی ٹیم پر اپنی برتری ثابت کی۔دوسری جانب نیدرلینڈز کی ٹیم نے زمبابوے کے خلاف پاکستانی ٹیم کی کارکردگی دیکھی جائے تو یہ اس ٹورنامنٹ میں ایک میچ جیتنے کا بہترین موقع تھااور پاکستان کو اپنا اوسط بہتر بنانے کا بھی یہ ایک مناسب موقع تھا۔ پاکستان میچ تو جیت گیا تاہم91 رنز کے کم ہدف کے تعاقب میں 4 وکٹیں کھودیں۔