ستم ظریفی ہے کہ جاپان کی طرف سے افغانستان کے لئے سازوسامان (افغان ٹرانزٹ کارگو) کی فوری کلیئرنس کے لئے عطیہ کئے گئے 3 جدید ترین جانچ پڑتال کے آلات (اسکینرز) نصب کئے گئے ہیں لیکن کارکردگی کے لحاظ سے یہ غیر فعال ہیں۔ چند ماہ پہلے تک‘ اِن میں سے 2 اسکینرز ناکارہ تھے جبکہ تیسرا (صرف ایک) بھی محدود پیمانے پر خدمات فراہم کر رہا ہے اور اِس کی وجہ سے تجارتی نقل و حمل میں تاخیر ہو رہی ہے۔ تاجروں کو سرحد پر کارگو منجمند رہنے سے ’ڈیمریج چارجز‘ ادا کرنے پڑتے ہیں‘کابل میں افغان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے سرکردہ تاجروں نے حال ہی میں پاکستان کا دورہ کیا اور اِس دورے کے دوران پاکستانی ہم عصر تاجروں اور متعلقہ حکومتی اہلکاروں سے ملاقاتوں میں جو نکات اُٹھائے اُن میں یہ بات بھی شامل تھی کہ افغان تاجر متحدہ عرب امارات‘ ترکی اور چین میں بینکاری کی سہولیات استعمال کر سکتے ہیں اور انہیں وہاں باقاعدہ کھاتے (بینک اکاؤنٹس) کھولنے کی بھی اجازت ہے لیکن جب پاکستان میں تمام چھوٹے بڑے افغان تاجروں کو بینک اکاؤنٹس کھولنے کی سہولت حاصل نہیں ہے۔ افغان تاجروں نے پاکستان کے ہوائی اڈوں پر اپنی مشکلات سے بھی سننے والوں کو آگاہ کیا اور اُمید کی جا سکتی ہے کہ ’افغانستان کے حکومتی و نجی تاجروں کے تحفظات دور کرتے ہوئے پاک افغان تجارت کو وسعت دی جائے گی جو دو ہمسایہ ممالک کے یکساں مفاد میں ہے۔ افغان تاجروں کو ایک مشکل یہ بھی درپیش ہے کہ اُنہیں بھارت کی جانب سے ماضی جیسا تعاون (گرمجوش دوستانہ رویہ) نہیں مل رہا۔ فی الوقت بھارت نے افغانوں کے لئے ہر قسم کے ویزے روک رکھے ہیں کیونکہ افغانستان میں ایک ایسی حکومت قائم ہوئی ہے جو افغان وسائل اور سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے رہی۔ یہ صورتحال خاصی دلچسپ و عجیب ہے کہ اگرچہ افغان طالبان حکومت کے بارے میں پاکستان کے بھی تحفظات ہیں اور افغانستان سے پاکستان کے سرحدی علاقوں میں دراندازی اور حملوں کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں جس سے پاکستان کی داخلی سلامتی کو خطرات لاحق ہیں تو دوسری طرف بھارت بھی افغان طالبان حکومت سے خوش نہیں۔ پاکستان تجارت کے ذریعے افغانستان کا تعاون حاصل کر سکتا ہے۔ افغان تاجر پاکستان میں سرمایہ کاری کے خواہشمند ہیں جنہیں متعلقہ حکومتی اداروں (بشمول فیڈرل بورڈ آف ریونیو‘ ایف بی آر) کی میزبانی میں ’سرمایہ کاری کانفرنس‘ کے لئے مدعو کرنا چاہئے۔ اِس ایک نکتے کو سمجھنا ہوگا کہ جب تک پاک افغان تجارت کے قانونی پہلوؤں اور امکانات کو ترقی نہیں دی جاتی اُس وقت تک غیرقانونی طریقوں سے تجارت جاری رہے گی ۔ اِس بات پر قومی و متعلقہ صوبائی فیصلہ سازوں کو سوچنا چاہئے کہ اگر ہم پڑوسی ملک افغانستان کے ساتھ تجارتی خسارہ ختم نہیں کر سکتے تو پھر دنیا کے کسی بھی ملک کے ساتھ تجارتی خسارے پر قابو نہیں پا سکیں گے۔ اِس سلسلے میں اعدادوشمار سے پاک افغان تجارتی صورتحال کی سنگینی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ستمبر دوہزاراکیس میں افغانستان کے لئے پاکستان سے برآمدات قریب 8 کروڑ (80ملین) ڈالر رہیں جبکہ افغانستان سے پاکستان کے لئے درآمدات ساڑھے بارہ کروڑ (125ملین) ڈالر رہیں یوں مجموعی طور پر پاک افغان دوطرفہ تجارت کا حجم قریب 1.83 ارب ڈالر ہے۔ پاکستان نے 85 کروڑ ڈالر سے زیادہ (859ملین) مالیت کی اشیا و اجناس برآمد کیں اور اس کی درآمدات تقریباً ستانوے کروڑ (976ملین) ڈالر رہیں۔ اِس صورتحال کو دیکھا جائے تو پاک افغان تجارت میں افغانستان کا پلڑا بھاری ہے اور اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ افغان تاجر زیادہ فعال ہیں اور باوجود مشکلات کے بھی اپنے ملک کی ایک نہایت ہی مشکل وقت میں خدمت کا حق ادا کر رہے ہیں۔ افغانستان بین الاقوامی پابندیوں کی زد میں ہے اور چار دہائیوں سے جنگ کا شکار ہونے کے باوجود اگر اُس کی تجارتی حکمت عملی پاکستان سے بہتر ہے تو ہمارے فیصہ سازوں کی قابلیت و اہلیت پر سوال تو بنتا ہے جو بیرون ملک سے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ رواں سال (دوہزاربائیس) کے اوائل سے افغانستان سے کوئلے کی درآمدات ہو رہی ہیں لیکن اِس کے باوجود پاک افغان تجارت پر ’سردمہری‘ اور ’بیوروکریسی‘ کے سائے ہیں۔ طرح طرح کے بہانے اور جواز بنا کر افغان تجارت کی حوصلہ شکنی کرنے والے پاکستان کی خدمت نہیں بلکہ ہر دن نقصان کر رہے ہیں اور ضرورت اِس امر کی ہے کہ پاک افغان تجارت کو ’حب الوطنی‘ کے نکتہئ نظر سے بھی دیکھا جائے۔ حالیہ چند دہائیوں کے دوران افغان تاجروں کی سرمایہ کاری متحدہ عرب امارات اور ترکی منتقل ہوئی ہے جبکہ پاکستان کا استعمال صرف اور صرف راہداری کی حد تک کیا جا رہا ہے۔ سمجھنا ہوگا کہ جب پاکستان پر افغان تاجروں کا اعتماد نہیں رہا تو اِس سے پاکستان میں روزگار کے مواقع اور سرمایہ کاری بھی نہیں ہو رہی۔ تلخ حقیقت ہے کہ ’ایف بی آر‘ اور حفاظتی انتظامات کے تحت جو اقدامات کئے گئے ہیں اُن سے حقیقی افغان تاجروں کی دل شکنی‘ حوصلہ شکنی اور مالی نقصان ہو رہا ہے جبکہ ’ٹرانزٹ ٹریڈ‘ کا غلط استعمال کرنے والے ایک غیریقینی کی صورتحال سے یقینی (بھرپور) فائدہ اُٹھا رہے ہیں! پیش نظر رہے کہ افغان تاجروں اور سرمایہ کاروں کے پاس پاکستان میں کم از کم ساڑھے تین سو صنعتی یونٹس میں ملکیت‘ شراکت داری یا شیئر ہولڈنگ ہے۔ افغانستان میں طالبان حکمرانوں کا دور حکومت ’اگست دوہزاراکیس‘ سے جاری ہے۔ اقتدار میں واپسی کے بعد افغان طالبان سے فاصلہ رکھا گیا ہے لیکن اب بھی دیر نہیں ہوئی اور اگر پاکستان حکومت ’پاک افغان تجارتی ترقی اور سرمایہ کاری کے فروغ کے لئے لائحہ عمل مرتب کرے تو ماضی میں کروڑوں لیکن آج کم سے کم لاکھوں ڈالر سرمایہ کاری راغب کی جا سکتی ہے اور اگر ایسا کر لیا گیا تو پڑوسی افغانستان کے تاجر متحدہ عرب امارات اور ترکی کی بجائے پاکستان میں سرمایہ کاری کو ترجیح دیں گے۔ پاک افغان سرحد سے متصل صنعتی بستی کیوں نہیں بنائی جا سکتی‘ جس کا نہ صرف قبائلی اضلاع بلکہ پورے ملک کو فائدہ ہوگا۔