پشاور کہانی: ترجیحات

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان پشاور کی سیر کے لئے نکلے تو یونیورسٹی روڈ اور حیات آباد کے اِس ’اچانک دورے‘ میں اُن کا استقبال بے ہنگم ٹریفک اور صفائی کی ابتر صورتحال نے کیا‘ جس پر اُن کی برہمی فطری تھی یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جس پر غوروخوض ہونا چاہئے کہ کسی ایک علاقے میں ٹریفک اور صفائی کی صورتحال میں بہتری سے اصلاح نہیں ہوگی کیونکہ پشاور 92 یونین کونسلوں کا مجموعہ ہے اور بلا سوچے سمجھے پشاور کے دیہی علاقوں کو اگر ”پشاور“ کا حصہ بنا دیا گیا ہے تو اصلاح کی ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ فصیل شہر کے اندر اور اِس سے باہر کی آبادی کو کم سے کم چار دائروں (زونز) میں تقسیم کر دیا جائے۔ ایسا کرنے سے وسطی‘ مشرق‘ مغرب شمال اور جنوب کے علاقوں (زونز) کے مسائل زیادہ بہتر انداز میں حل ہو سکیں گے۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے جن علاقوں کا دورہ کیا وہ یونیورسٹی روڈ اور حیات آباد کے علاقے ایک دوسرے سے متصل ہیں اور اِن کا شمار پشاور کی نسبتاً جدید اور نئی تعمیر ہونے والی بستیوں میں ہوتا ہے‘ جہاں گلی کوچے نہیں بلکہ باقاعدہ دو اور تین رویہ سڑکیں آمدورفت کے لئے استعمال ہوتی ہیں۔ جہاں نکاسیئ آب اور کوڑا کرکٹ (ٹھوس گندگی) یکجا کرنے کے لئے اندرون شہر کی نسبت زیادہ مالی وسائل خرچ کئے گئے ہیں لیکن اگر اِن ’مبینہ جدید رہائشی بستیوں‘ کی صورتحال بھی یہ ہے کہ جنہیں دیکھ کر وزیراعلیٰ کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا کہ اُن کی ناک کے نیچے صوبائی دارالحکومت کی اگر صورتحال یہ ہے اور متعلقہ ادارے اُن سے مسلسل غلط بیانی کر رہے ہیں تو خیبرپختونخوا کے دیگر اور دور دراز اضلاع میں صفائی کی صورتحال کا اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں ہے۔وزیراعلیٰ اہل پشاور کے اِس دکھ کو سمجھیں کہ جنہیں اپنی آنکھوں دیکھے پر یقین اور گمان تک نہیں رہا کہ یہ کبھی ”پھولوں کا شہر“ ہوتا تھا اور یہی شہر صرف پاکستان نہیں بلکہ جنوب ایشیائی خطے کا قدیم ترین اور زندہ تاریخی شہر ہے۔۔شہری سہولیات تو بہت دور کی بات پشاور کے کئی علاقے بنیادی میونسپل سہولیات سے بھی محروم ہیں!۔ موسم سرما کے آغاز پر اہل پشاور کی تشویش گیس (ایندھن) کا تعطل ہے جسے ’گیس لوڈشیڈنگ‘ اور تکنیکی طور پر گیس پریشر میں کمی کہا جاتا ہے۔ چند برس پہلے ’سوئی نادرن‘ نے پشاور شہر میں زیرزمین گہرائی میں بچھے ہوئے گیس کے ترسیلی نظام کو کاٹ کر نیا ترسیلی نظام بچھایا اوراعلان کیا کہ اِس اقدام کا مقصد گیس کے ترسیلی نظام کی خرابیاں دور کرنا ہے۔ قیام پاکستان سے 75 سال تک پشاور شہر کے گلی کوچوں اور شاہراؤں کی جس قدر تعمیروترقی ہوئی تھی وہ سب اکھاڑ کر پلاسٹک کی گیس پائپ لائن اِس قدر کم گہرائی میں بچھائی گئی کہ کہیں جگہوں پر چوہوں (rats) نے اِس پائپ لائن کو کاٹ ڈالا اور کئی جگہوں پر ہلکی یا بھاری آمدورفت اور کھدائیوں سے پائپ لائن ٹوٹ گئی۔ پلاسٹک کی گیس پائپ لائن بچھانے کے بعد جن گلی کوچوں اور شاہراؤں کو پختہ کرنا تھا‘ وہ کام بھی موثر انداز میں نہیں کیا گیا اور آج پشاور شہر کی ہر دوسری گلی کھنڈر کا منظر پیش کر رہی ہے۔ اہل پشاور کا دیرینہ مطالبہ آج بھی گیس کی بلاتعطل فراہمی ہے مگراِس بارے میں بہت کم اظہار خیال کیا جاتا ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ پشاور کی ہر مشکل اور ہر مسئلہ حل ہو سکتا ہے لیکن اگر ”ترجیح پشاور“ ہو جائے۔ پشاور کی خوبصورتی‘ یہاں کے باغات‘ سبزہ زار اور آب و ہوا پھر سے پاک و صاف ہو سکتے ہیں لیکن اگر ”ترجیح پشاور“ ہو جائے۔