افراد باہم معذوری: اپنی کھوج کا سفر

کراچی کی این اِی ڈی‘ یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اُن چند اہم تعلیمی اداروں میں سے ایک ہے جس کا بطور کالج آغاز قیام پاکستان سے پہلے ہوا تھا‘ بعدازاں 1977ء میں اِسے صوبائی حکومت کے ایک قانون کے تحت اِسے یونیورسٹی کا درجہ دیا اور ملک میں سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے میں اِس جامعہ میں ہونے والی تحقیقی خدمات کسی اضافی تعارف کی محتاج نہیں ہیں۔ رواں ہفتے ’این ای ڈی‘ سے فارغ التحصیل ہونے والے 2300 سے زائد طلبہ کے اعزاز میں ایک روایتی تقریب عالمی اور قومی ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز رہی کیونکہ اِس میں تیس سالہ‘ حلیمہ سرور نامی بینائی سے محروم طالبہ نے لسانیات میں ’بیچلرز‘ سند حاصل کی‘ جو یونیورسٹی کی 100 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے۔ تقریب سے اپنے خطاب میں وائس چانسلر پروفیسر سروش حشمت لودی نے کہا کہ ”گزشتہ سال یونیورسٹی کی صد سالہ سالگرہ منائی گئی۔

 این ای ڈی یونیورسٹی دوہزاراکیس میں پہلی انجینئرنگ یونیورسٹی تھی جس نے اٹھارہ اسکالرز کو ’پی ایچ ڈی‘ کی ڈگریاں دیں اور اِس موقع پر اُنیس طلبہ کو ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں دینے کے لئے اعلیٰ تعلیم کا پہلا (انجینئرنگ) ادارہ ہونا باعث فخر ہے۔“ اُنہوں نے بینائی سے محروم طالبہ کا ذکر کیا اور کہا کہ حلیمہ سرور کے اقدام نے معذور افراد کے لئے اعلیٰ تعلیم کے دروازے کھول دیئے ہیں جنہیں مایوس ہونے کی بجائے آگے بڑھتے ہوئے اپنے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کی کھوج کے سفر کو جاری رکھنا چاہئے۔ یہ خصوصی افراد معاشرے کا حسن ہیں اور اِنہیں معاشرے کا فعال رکن بننے کے لئے یکساں بنیادوں پر (تعلیم و ملازمتی) مواقع ملنے چاہئیں۔“

 معذور افراد کی تخلیقی صلاحیتوں سے کسی کو انکار نہیں اور یہ بات بھی طے ہے کہ اپنے کام کو لگن اور عمدگی سے سرانجام دینے میں شاید ہی کوئی طبقہ خصوصی افراد سے زیادہ لگن و محنت کا مظاہرہ کرتے ہوں جبکہ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ خصوصی افراد ہمت نہیں ہارتے اور عملی زندگی میں کامیابی ہمیشہ اُنہی افراد کو سرآنکھوں پر بٹھاتی ہے جو حالات کی سختیوں میں اپنے آپ کو منوانے کا ہنر جانتے ہیں اور اُن کی قوت ارادی اِس قدر مضبوط ہوتی ہے کہ وہ ہر ٹھوکر لگنے کے بعد سنبھلنے اور ہر مرتبہ گرنے کے بعد اُٹھنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔

 بلاشک و شبہ محترمہ حلیمہ سرور نے ثابت کیا ہے کہ ’افراد باہم معذوری‘ کسی سے پیچھے نہیں اور اگر انہیں بھی تعلیم دی جائے تو محنت و لگن سے منفرد اعزازات حاصل کر سکتے ہیں کیونکہ یہ کسی بھی طرح ’کم صلاحیتوں کے مالک نہیں ہوتے‘ اور نہایت ہی عاجزی اور صرف اپنی محنت کے بل بوتے پر ’گرانقدر اعزازات‘ حاصل کرنے کا ظرف و صلاحیت رکھتے ہیں۔ ’حلیمہ سرور‘ کی جدوجہد اور کامیابیاں صرف صوبہ سندھ ہی نہیں بلکہ دیگر صوبوں میں تدریسی امور سے متعلق فیصلہ سازوں کے لئے ایک روشن مثال ہے اور اِسے وقت گزرنے کے ساتھ فراموش کرنے کی بجائے پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔حلیمہ سرور کو ’این ای ڈی جامعہ‘ کے ’اکتیسویں کانووکیشن[ میں ’اپلائیڈ انگلش لسانیات‘ میں ’ایم ایس‘ کی سند سے نوازا گیا ہے۔ ابتدا میں یونیورسٹی انتظامیہ حلیمہ کو داخلہ دینے سے گریزاں تھی کیونکہ شام کی کلاسز کے لئے آمدورفت سے جڑی مشکلات کے بارے میں زیادہ سوچا گیا تھا۔

 حلیمہ سرور کے حالات بارے ذرائع ابلاغ نے یہ بات بھی پیش کی ہے کہ ماضی میں‘ اِسے بصارت میں کمی کے باعث مرکزی دھارے کے تعلیمی اداروں نے بطور معلمہ ملازمت دینے سے بھی انکار کیا تھا لیکن حلیمہ سرور نے ہمت نہیں ہاری اور خود کو ثابت کرنے کے لئے عزم و ہمت کو برقرار رکھا‘ اپنی تعلیمی صلاحیت میں اضافہ کیا اور ایک ایسی نمایاں کامیابی حاصل کی‘ جو بظاہر ناممکن دکھائی دے رہی تھی۔ اَلمیہ ہے کہ پاکستان میں‘ خصوصی صلاحیتوں کے حامل اَفراد کو بالعموم اہل خانہ اور معاشرے کی جانب سے نظرانداز کر دیا جاتا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ حلیمہ سرور کا یہ کارنامہ انتہائی اہم اور فقید المثال ہے کیونکہ اِس سے ملک بھر کے خصوصی افراد کو اپنے خوابوں کا تعاقب کرنے کی تحریک ملے گی۔ تکنیکی ترقی‘ خاص طور پر معاون ٹیکنالوجی جس میں خصوصی پروگرام اور سافٹ وئر شامل ہیں‘ نے عمومی کام کاج کی انجام دہی نسبتاً آسان بنا دی ہے۔ بینائی سے محروم یا بینائی کی کمی رکھنے والے افراد اور دیگر معذور افراد کے لئے الگ انسٹی ٹیوٹ قائم کرنے کی بجائے اِنہیں مرکزی دھارے کے اداروں سے تعلیم دینے کے لئے اقدامات ہونے چاہئیں۔

 کسی بھی دوسرے فرد کی طرح ’افراد باہم معذوری‘ کا بھی قومی اداروں پر یکساں حق ہے اور ایسے خصوصی طلبہ کو ترجیحی بنیادوں پر ٹیکنالوجی کی متنوع اشکال اور موافقت پذیر آلات کے بارے تحقیق میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ متعلقہ سرکاری محکموں کو محکمہئ تعلیم کے ساتھ کاروباری شعبے کو بھی ایسے افراد کی سرپرستی کی جانب راغب کرنا چاہئے تاکہ ایک ایسی افرادی قوت جسے معاشرہ عموماً لاعلمی کی وجہ سے ”بوجھ“ سمجھتا ہے لیکن وہ معاشرتی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اُور اگر حکومتی سطح پر خاطرخواہ جامع اقدامات کئے جائیں تو کوئی وجہ نہیں قومی تعمیروترقی کے بنیادی ڈھانچے میں معذور افراد بھی دیگر ہم وطنوں کے شانہ بشانہ خدمات سرانجام دے رہے ہوں گے۔ اِس مقصد کے لئے ادارہ جاتی سطح پر تبدیلیوں‘ اصلاحات اور ’افراد باہم معذوری‘ کی حوصلہ افزائی‘ اِن کی شمولیت و موجودگی کے بغیر‘ معاشرتی سطح پر پائی جانے والی منفی سوچ کا خاتمہ نہیں ہوگا۔

 سمجھنا ہوگا کہ معذوری کسی بھی شخص نے خود اختیار نہیں کی بلکہ یہ قدرت کی جانب سے ہے اور اِس بنا پر کسی شخص میں ایک صلاحیت کی کمی کو اُس کے لئے امتیاز نہیں بنانا چاہئے کیونکہ ایسا کرنے سے بالآخر (حتمی طور پر) ملک کا نقصان ہوتا ہے اور آبادی کا بڑا حصہ تعلیم سے محروم رہنے کے علاوہ بطور افرادی قوت بھی سماجی ترقی میں شمولیت نہیں کر پاتا۔ حلیمہ سرور نے جو کارہائے نمایاں سرانجام دیا ہے اُس سے قومی و صوبائی فیصلہ سازوں اور سماجی سطح پر روئیوں میں تبدیلی آنی چاہئے۔ خصوصی افراد کی خصوصی ضروریات حکومت اور معاشرے پر یکساں ذمہ داری ہے اور اِس ذمہ داری کو فرض (واجب) سمجھ کر ادا کرنے کے لئے کئی ممالک کی حکمت عملیاں بطور مثال موجود ہیں۔ بہرصورت اِس بات کو یقینی بنانے کے لئے کہ تمام خصوصی افراد سماجی‘ سیاسی اور معاشی طور پر بااختیار ہوں‘ اُنہیں تعلیم و ملازمت کے یکساں مواقع ملیں اور ایسے افراد کو تعصب نہیں بلکہ امتیاز و پسندیدگی کے ساتھ اپنی زندگی آزادانہ طور پر گزارنے کی اجازت ہونی چاہئے۔