پولیوفری پاکستان کا خواب

بھر پور کوششوں کے باوجود تاحال پاکستان کو پولیو سے پاک کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا۔ عالمی ادارہ صحت کی اکتوبر میں جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق پاکستان بیس کیسز کے ساتھ رواں سال پولیو سے متاثرہ ممالک میں پہلے نمبر پر رہا۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق دنیابھر میں گذشتہ دس مہینوں کے اندر پولیو کے 29کیسز کی تصدیق ہوئی ہے ان میں سے بیس پولیو زدہ بچوں کا تعلق پاکستان خصوصا ًخیبر پختونخوا اور ضم اضلاع سے ہے۔ پسماندہ افریقی ملک موزمبیق میں سات اور افغانستان میں دو پولیو کیسز کی تصدیق ہوئی ہے۔ قومی ادارہ صحت کے مطابق پشاور، سوات اور بنوں میں سیوریج لائنوں میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے جس کی وجہ سے مزید بچوں میں پولیو کا مرض پھیلنے کا خدشہ ہے۔ ملک میں انسداد پولیو مہم ہر مہینے دو مہینے بعد باقاعدگی سے چلائی جاتی ہے۔ 

پولیس کی سیکورٹی میں انسداد پولیو ٹیمیں گھر گھر جاکر بچوں کو پولیو سے بچاؤ کی ویکسین پلاتی ہیں تین روزہ مہم میں جو بچے قطرے پلانے سے رہ جاتے ہیں ان کے لئے مزید ایک روزہ مہم چلائی جاتی ہے۔ تاہم اب بھی بعض علاقوں میں لوگ بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے سے انکاری ہیں۔کچھ علاقوں میں انسداد پولیو ٹیموں پر حملے بھی کئے جاتے ہیں اور کئی قیمتیں جانیں ضائع بھی ہوچکی ہیں۔ پولیو کے بڑھتے ہوئے کیسز کی وجہ سے نہ صرف بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی بدنامی ہورہی ہے بلکہ قطروں سے محروم رہ جانے والے بچے زندگی بھر کے لئے معذور کرنے والے مرض کا شکار بن جاتے ہیں۔

اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہوگی کہ  اس جدید دور میں بھی ہمارے ہاں فرسودہ خیالات موجود ہیں۔ میڈیکل سائنس کی حیرت انگیز ترقی نے چیچک، یرقان، طاغون، سرطان اور تپ دق جیسی مہلک بیماریوں کاکامیاب علاج دریافت کرلیا ہے۔ ہم سردرد، عارضہ قلب، پیٹ میں مروڑ، زخم آنے اور دیگر بیماریاں لاحق ہونے پر فوری طور پر ہسپتال کا رخ کرتے ہیں لیکن بیماریوں سے پیشگی بچاؤ پرتوجہ نہیں دیتے۔عالمی ادارہ صحت، بل گیٹس فاؤنڈیشن کے مالی تعاون اور حکومت کی کوششوں کے باوجود پولیو کے مرض پر قابو پانے میں ناکامی سے  نہ صرف ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ بیرونی امداد کی راہ میں رکاوٹیں حائل ہوتی ہیں اور عوامی بہبود کے بہت سے منصوبے التوا کا شکار ہوتے ہیں۔

 حکومت نے بچوں کو پولیو سے بچانے میں رکاوٹیں پیدا کرنے والوں کے خلاف قانون سازی بھی کی ہے تاہم ان قوانین پر عمل درآمد  میں مزید تیزی لانے کی ضرورت ہے۔ آج بھی ضم اضلاع سمیت بعض بندوبستی علاقوں کو پولیو فری بنانے کی کوششیں بارآور ثابت نہیں ہوسکیں اس اہم نوعیت کے قومی مسئلے پر علمائے کرام، دانشوروں،میڈیا، ماہرین تعلیم اور سماجی حلقوں کوبھی اعتماد میں لینا ضروری ہے تاکہ پاکستان کوپولیو فری بنانے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے۔پولیو کے نقصانات سے آگاہی پیدا کرنے کے لئے نصاب میں بھی مضامین شامل کئے جاسکتے ہیں۔

قومی مفاد ہر چیز پر مقدم ہے اس پرسمجھوتہ کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دی جاسکتی۔ایسے حالات میں کہ جب ملک میں حالیہ سیلابوں اور اس سے قبل کورونا وباء کے باعث معیشت زبوں حالی کا شکار ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک صحت مند معاشرے کے قیام کے لئے بھرپور کوششیں کی جائیں اور پولیو جیسے مرض کا خاتمہ اس میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے جو دائمی معذوری کی صورت میں اس کے شکار افراد دوسروں کی مد د کے محتاج بن جاتے ہیں۔