سیانے کہتے ہیں کہ جب دیواروں سے دھوپ ڈھلتی ہے اور زندگی کی شام کے سائے پھیلنے لگتے ہیں تو بہانے بہانے بیتا ہوا وقت پاس آ بیٹھتا ہے اور پرانے قصے کہانیاں چھیڑ دیتا ہے، کچھ کہانیاں یاد کر کے دل سے ہوک اٹھتی ہے کچھ سن کر ہونٹوں پر مسکان گدگدی کرنے لگتی ہے اور بہت سے قصے اس لئے بھی آنکھوں میں دھواں بھر دیتے ہیں کہ آنکھوں کے سامنے کچھ مہربان چہرے آ جاتے ہیں، اب زندگی بہت مصروف ہو گئی ہے اور گزشتہ کل کے بر عکس ایک مختلف انداز سے گزرنے لگی ہے،نئی نسل کے پاس اپنے لئے وقت نہیں بچتا تو وہ بزرگوں کے لئے وقت کہاں سے لائیں، ان کی مصروفیات در اصل ان کی ترجیحات کی وجہ سے ہیں اور نئے دور میں سانس لینے والی نئی نسل کی ترجیحات میں ساری دنیا کے لئے تو وقت ہے مگر اپنے گھر میں موجود لوگوں کے لئے قطعاً نہیں، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بزرگوں کے نئے زمانے میں رائج بہت سی اشیاء سے کم کم واقفیت ہے‘ اس لئے بہت سی باتوں کی سمجھ ذرا دیر سے آتی ہے اور نئی نسل کے پاس اتنا وقت نہیں ہو تا‘ یہی وجہ ہے کہ رفتہ رفتہ ان کے درمیاں فاصلہ بڑھنے لگتا ہے لیکن جو لوگ اپنے آخری سانس تک خود کو کسی مثبت سرگرمی میں مصروف رکھے ہوئے ہوتے ہیں انہیں تنہائی تنگ نہیں کرتی کیونکہ وہ نئی نسل کی مصروفیات سے آگاہ ہوتے ہیں‘اس لئے ان سے وقت دینے کا تقاضا بھی نہیں کرتے، نئی نسل میں بھی ایسے نوجوانوں کی کمی نہیں جو اپنی بہت سی باتوں میں اپنے بڑوں کو شامل رکھتے ہیں اور ان کے تجربوں سے خود کو سنوارے رکھتے ہیں کہیں کہیں سے کوئی اظہر عنایتی یہ شکوہ بھی کرتا دکھائی دیتا ہے کہ
راستو کیا ہوئے وہ لوگ کہ آتے جاتے
میرے آداب پہ کہتے کہ جیتے رہئے
جیتے رہئے کی دعا تو انہی لوگوں کو د ی جا سکتی ہے نا، جوآداب کہنا نہیں بھولے، بزرگ جب نہیں رہتے تو گلیاں سونی ہو جاتی ہیں،آنگن میں چپ کا راج پھیلنے لگتا ہے، لیکن اس خسارے کا احساس بھی کم کم لوگوں کو ہوتا ہے، میں گزشتہ روز قصہ خوانی ایک کام سے گیا تو آنکھوں کے سامنے اس بازار میں بتایا ہوا سارا وقت جیسے آنکھوں کے سامنے آ گیا، قصہ خوانی کی رونقوں میں تو خیر اب تک کمی نہیں آئی بلکہ کچھ زیادہ ہی با رونق ہو گیا ہے لیکن آج کی رونق میں ایک تیزی ایک ہنگامہ اور ایک افرا تفری کی کیفیت سی نظر آتی ہے، جب کہ گزشتہ کل کی رونق میں ایک ٹھہراؤ اور ایک دھیما پن اور ایک سکون سا تھا، بازار کے مشرقی کونے پر ایک خوبصورت ہوٹل تھا اس کے ساتھ ہی چند دکانوں کے بعد، شہید حاجی محمد حلیم جان کایاسر ہوٹل تھا،نیچے دکانیں تھیں اور پہلی منزل پر ایک کشادہ ریستوران تھا،جس کی بڑی بڑی شیشے کی کھڑکیوں کے پاس لگی ہوئی میزوں پر ہم نے پانچ دہائیاں پہلے نہ جانے کتنی شامیں گزاریں، ان کھڑکیوں سے پورا بازار نظر آتا، بازار کا رونق میلہ تب بھی تھا مگر بھاگ دوڑ والا ماحول نہ تھا، اکثر شام کے آس پاس بہت ہی قد آور اور ممتاز ادبی شخصیات کو بھی ہم بازار سے آہستہ اور پر وقار انداز میں گزرتے دیکھتے، جن دو شخصیات کو کم و بیش ہر شام ہم دیکھا کرتے ان میں ایک شاعر،ادیب اور دانشور آقائے ابوالکیف کیفی تھے، جو بغل میں چند کتب و جرائد دبائے خراماں خراماں فٹ پاتھ پر سے چلتے ہوئے بازار مسگراں کی طرف مڑ جاتے جہاں کبھی ان کی مارکیٹ ”کیفی مارکیٹ“ کی جھلملاتی روشنیاں عجب بہار دکھلاتی تھیں، ابوالکیف کیفی بلا کے خوش لباس اور وضع دار بزرگ تھے، ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے ان کے ہاتھ میں چھڑی آگئی تھی۔ یاسر ہوٹل کی کھڑکیوں سے بازار کا منظر ایک دن بہت خالی خالی لگا اس دن ابوالکیف کیفی بھی شام کو نظر نہیں آئے تھے اور پھر کبھی نظر نہ آئے، دوسری شخصیت عبداللطیف شمیم بھیروی تھے وہ شام ڈھلنے کے بعد قصہ خوانی سے گزرتے ہوئے چوک یادگار کی طرف جاتے نظر آتے اور وہاں کبھی کبھی قذافی ہوٹل میں چائے پینے رک جاتے۔شمیم بھیروی بھی ایک بہت عمدہ شاعر ادیب اور صحافی تھے‘ ہفت روزہ شیرازہ کے مدیر تھے اور اسی کے چند پرچے ہمیشہ ان کے ہاتھ میں ہوا کرتے، وہ گل بہار میں رہتے تھے اور جب میں بھی گل بہار آیا، ان کے ساتھ تو بعد میں بہت نشستیں رہیں،جب انہیں ہارٹ اٹیک کی وجہ سے ہسپتال لے جایا گیا اور جلد ہی سنبھل کر واپس آ گئے تھے، میں ملنے گیا تو مجھے ایک غزل سنائی کہ یہ ہسپتال میں کہی ہے جس کا آخری شعر یاد رہ گیا
زندگی میں تہمتیں باقی تھیں کچھ
موت کی سرحد کو چھو کر آ گیا
میری آ قائے ابوالکیف کیفی کے ساتھ بھی بہت نشستیں رہیں مجھے وہ پشاور میں ہونے والی ادبی نشستوں اور خصوصا پارکوں میں ہونے والے مشاعروں کی روداد سنایا کرتے تھے بلکہ راولپنڈی کے ان مشاعروں کا احوال بھی سنایا کرتے جن میں انہیں بطور خاص پشاور سے بلا یا جاتا، اس طرح اپنے ادبی جریدے اور تعلیمی رسالے کی اشاعت اور ترسیل میں پیش آنے والی مشکلات کا جب ذکر کرتے تو ان کے چہرے پر میں نے کبھی پریشانی نہیں دیکھی‘ہمیشہ ایک دھیمی دھیمی سی مسکراہٹ کے ساتھ سار ا احوال سنایا کرتے، میں ان کے یا شمیم بھیروی کے ساتھ جب بھی بیٹھتا یا پھر چوک یادگار کے کٹرے میں رہنے والے ممتاز شاعر اور صحافی صحرائی سانبھری سمیت کئی ادبی زعماء کے آخری آخری دنوں میں شام سمے کچھ وقت گزارتا تو مجھے اس لئے بہت اچھا لگتا کیونکہ کبھی انہوں نے بہت ہی بھری پری زندگی گزاری تھی جب ان کے گرد ایک رونق رہا کرتی مگر اب ان کا ساتھ محض ان کی تنہائی دیتی تھی۔ وہ بڑے لوگ تھے ان کے ہونٹوں پر کبھی کوئی شکوہ شکایت نہیں آئی مگر مطمئن سے شب و روز گزارلیا کرتے تھے۔ نئے زمانے کے پروردہ نئے لوگوں کی ساری دلچسپی کا مرکز ان کی اپنی ذات ہے، اس لئے بزرگ اکیلے ہی اپنے ساتھ اس بیتے ہوئے اس زمانے میں ہی خوش رہتے ہیں جس زمانے میں وہ بھی اس بازار کی رونق میلہ کا حصہ تھے۔ وقت گزر جاتا ہے اس کے گزرنے کا تو پنہ نہیں چلتا مگر ہمارے ماتھے پر اپنی نشانیاں چھوڑ جاتا ہے اور پھر یہ نشانیاں ہی ہماری تنہائی کے دنوں کی دوست ہو تی ہیں اورتب ہم بھی منیر نیازی کی طرح اپنے کانوں میں یہی سرگوشی کرتے ہیں۔
وقت کس تیزی سے گزر ا روز مرہ میں منیر
آج کل ہوتا گیا اور دن ہوا ہوتے گئے