ایک کہانی

کیوبا (Cuba) کے ساحل پر ’گوانتاناموبے‘ نامی بدنام زمانہ امریکی قیدخانہ ’گیارہ جنوری دوہزاردو‘ سے قائم ہے جہاں امریکی و عالمی قوانین و قواعد کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قیدیوں پر ’بدترین تشدد‘ کیا جاتا ہے؛ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کیلئے مشہور اِس قیدخانے کو ’نام نہاد دہشت گردی کیخلاف عالمی جنگ‘ کے آغاز پر شروع کیا گیا جہاں قیدیوں کے بنیادی حقوق تسلیم نہیں کئے جاتے اور ان پر ہر قسم کے ظلم و ستم اور ناانصافی کے خوفناک ثبوت و شواہد منظرعام پر آ چکے ہیں۔ گوانتاناموبے المعروف ’گٹمو (Gitmo)‘ سے آمدہ کہانیوں میں نسلی بنیادوں پر تشدد بھی کیا جاتا ہے اِن کہانیوں میں سے ”ایک کہانی“ پاکستانی شہری سیف اللہ پراچہ کی بھی ہے‘ جنہیں قریب بیس سال ’گٹمو‘ میں قید رکھا گیا اور بالآخر بغیر کسی جرم یا فرد جرم عائد کئے رہا کر دیا گیا ہے امریکی حکام نے گوانتاناموبے کے اِس سب سے پرانے قیدی (75 سالہ سیف اللہ پراچہ) کو گزشتہ ہفتے (اُنتیس اکتوبر دوہزاربائیس) رہا کیا اور وہ اب پاکستان میں وطن واپس آچکے ہیں‘ سیف اللہ پراچہ پر امریکہ میں ’گیارہ ستمبر دوہزارایک‘ کے حملوں میں معاونت اور اِن حملوں کیلئے ذمہ دار ٹھہرائی گئی‘ القاعدہ تنظیم سے ہمدرد ہونے جیسے الزامات تھے تاہم اِن الزامات میں سے کوئی ایک الزام بھی ثابت نہیں ہوا اور نہ ہی ’سیف اللہ پراچہ‘ پر باقاعدہ فرد جرم عائد کی گئی۔ بنا ثبوت محض اِس شبے کی بنیاد پر ’سیف اللہ پراچہ‘ کو دو دہائیوں تک قید رکھا گیا کہ وہ دہشت گرد گروپ کیلئے مبینہ طور پر مالی معاونت کرتا ہے!کیوبا میں امریکی فوجی جیل میں حملوں کے بعد پکڑے گئے سینکڑوں مشتبہ عسکریت پسندوں کو رکھا گیا تھا۔ فی الوقت (چار نومبر دوہزاربائیس) ’گٹمو‘ میں 35 قیدی موجود ہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ پاکستانی شہری کی بنا جرم بیس سال قید اور بدنام زمانہ ’گٹمو قیدخانہ‘ امریکہ کے غرور کو ظاہر کرتا ہے جو خود کو کسی کے سامنے جوابدہ نہیں سمجھتا لیکن پوری دنیا کو اپنے سامنے جوابدہ سمجھتا ہے۔ ’سیف اللہ پراچہ‘ کی غیر قانونی حراست ایسا واحد کیس نہیں کیونکہ سینکڑوں ایسے قیدی تھے جنہوں نے بغیر کسی الزام کے مذکورہ بدنام زمانہ جیل میں اپنی زندگی کے بہترین برس گزارے۔ گوانتاناموبے‘ افغانستان اور عراق کی جیلوں میں امریکیوں نے جن جرائم کا ارتکاب کیا وہ انسانی تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ اِن قیدخانوں کو ”بلیک سائٹس“ بھی کہا جاتا ہے جن سے متعلق ان گنت رپورٹس سامنے آئی ہیں کہ کس طرح قیدیوں کو ’واٹر بورڈنگ‘ کے ذریعے تشدد
 کا نشانہ بنایا گیا۔ ’گٹمو‘ سمیت امریکہ کی جملہ ’بلیک سائٹس‘ کا ہر ایک قیدی غیر قانونی طور پر اٹھایا گیا اور ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ برس ہا برس قید اور تشدد کا سامنا کرنے کے بعد ہر پانچ میں سے ایک سے زیادہ قیدی کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں پایا گیا۔ توجہ طلب ہے کہ بنا الزام قیدیوں کو طویل عرصے تک یا اس معاملے کیلئے کسی بھی توسیعی مدت کیلئے زیرحراست رکھنا قانون سے زیادہ اخلاقی مسئلہ بھی ہے بلکہ یہ انسانی حقوق سے متعلق بین الاقوامی قوانین کی بھی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے’عالمی حقوق کے چیمپئن‘ امریکہ کو بہت پہلے بنا الزام قیدیوں کو رہا کر دینا چاہئے تھا لیکن چونکہ پوری دنیا خاموش تھی اور ہے اِس لئے ’گٹمو‘ جیسی بلیک سائٹس قیدیوں سے آباد ہیں جہاں بہت سے بے گناہ لوگوں کی زندگی کے قیمتی سال ضائع ہوئے ہیں درحقیقت ’نام نہاد دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ‘ میں امریکہ نے نہایت ہی گھٹیا جرائم کا ارتکاب کیا جس سے ”محکوم فطرت“ کو جنم ملا۔ ’گٹمو‘ قیدخانے کو بند کرنے کے امریکی اعلانات بھی وقتاً فوقتاً سامنے آتے رہے ہیں لیکن اِس پر خاطرخواہ عمل درآمد اِس وجہ سے بھی دیکھنے میں نہیں آیا کیونکہ ایسا کرنے کیلئے امریکہ پر جس ”عالمی دباؤ“ کی ضرورت ہے وہ نہیں پایا جاتا۔ گٹمو قیدخانہ بند کرنے کیلئے کھوکھلے وعدوں (اعلانات) کی بجائے وقت ہے کہ ’ناانصافی اور ظلم‘ کا یہ خونیں و پرتشدد باب ہمیشہ کیلئے ختم کیا جائے‘ جو انسانوں اور انسانیت کی کھلی تذلیل ہے۔