ماحولیاتی تفکر

اقوام متحدہ کے موسمیاتی تبدیلی کے سربراہی اجلاس کے لئے عالمی رہنما ’مصر‘ میں جمع ہیں جسے COP27 (کانفرنس آف پارٹیز) کے نام سے جانا جاتا ہے اور یہ اِس سلسلے کا ستائیسواں اجلاس ہے۔ اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوٹیرس پہلے ہی دنیا کو ماحولیاتی خطرات سے خبردار کر چکے ہیں اور اُن کا کہنا ہے کہ ”کرہئ ارض کا مستقبل جس انداز میں داؤ پر لگا ہوا ہے اُس پر دنیا کو پریشان ہونا چاہئے کیونکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں اور اگر کوئی ملک آج اِس کے نتائج بھگت رہا ہے تو دیگر کو خوشیاں نہیں منانی چاہیئں بلکہ اگر اِس آفت کا مقابلہ مل کر نہ کیا گیا اور دنیا اپنے اپنے مفادات کی سرحدوں میں تقسیم رہی ہے تو اِس سے انسانی بقا خطرے میں پڑ جائے گی۔ اگر گزشتہ چند برس کی بات کی جائے تو موسمیاتی بگاڑ کی کچھ شدید ترین علامات دیکھنے میں آئی ہیں۔ اقوام متحدہ کی نئی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ گزشتہ آٹھ برس میں اب تک کے آٹھ گرم ترین سال گزرے ہیں‘ جب کہ اس سال پاکستان میں آنے والے سیلاب نے اِن خطرات کو اُجاگر کیا ہے جن کا سامنا دنیا کے جنوبی خطے کے ممالک کو درپیش ہے اور اِس میں پاکستان بھی شامل ہے لیکن دنیا کے شمالی حصے کے ممالک فی الوقت موسمیاتی تبدیلیوں سے زیادہ متاثر نہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ اِس کی تباہی کو نظر انداز کر رہے ہیں لیکن کرہئ ارض کے وسائل کی زوال پذیر اور اِن وسائل کا استحصال چند ایسے محرکات ہیں جن پر کسی ایک ملک کو نہیں بلکہ پوری دنیا کو اکٹھے غور کرنا چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے ’COP27‘ اجلاس میں شریک ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ ”ماحولیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے نقصانات کو کسی ایک ملک کا مسئلہ نہ سمجھیں بلکہ اِس سے مشترکہ طور پر نمٹنے کے لئے ایک واضح اور کل وقتی ’روڈ میپ (لائحہ عمل)‘ وضع کریں جو کہ وقت کی ضرورت ہے۔“ اقوام متحدہ کی طرف سے دنیا کو جاگنے کی اپیل کرتے ہوئے جو کچھ بھی کہا جا رہا ہے اُس کی کامیابی کے اِمکانات بہت کم دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ ترقی یافتہ اور صنعتی ممالک ’آب و ہوا
 کے موضوع پر‘ صرف اُتنا کچھ ہی سننا پسند کرتے ہیں جتنا اُن کے ’معاشی مفادات‘ سے متصادم نہ ہو اور یہی بات آج کی دنیا کا المیہ ہے کہ اِس میں موسمیاتی تبدیلی کو ہر ملک اپنے نکتہئ نظر سے دیکھتے ہوئے اُس کا ایک ایسا مطلب اخذکرنے کی کوشش کرتا ہے جو درپیش مسئلے کا حل نہیں بلکہ اِس کی شدت میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔
جی 77 نامی تنظیم کے سربراہ کی حیثیت سے اور رواں برس موسمیاتی تبدیلیوں سے براہ راست متاثر ہونے کے ناطے‘ دنیا کی نظریں پاکستان پر مرکوز ہیں جو عالمی جنوب ’گلوبل ساؤتھ‘ ممالک کی جانب اقوام متحدہ کہ طلب کردہ ’COP27‘ اجلاس میں اپنا مقدمہ پیش کرے گا۔ وزیر اعظم شہباز شریف‘ جو مصر میں ہیں‘ نے اس اجلاس کو ”موسمیاتی تبدیلیوں اور گلوبل وارمنگ کے خلاف انسانیت کی جنگ“ قرار دیا ہے۔ اُمید ہے کہ وہ ممالک جو گلوبل وارمنگ سے سب سے زیادہ متاثر ہیں‘ وہ ممالک جنہوں نے موسمیاتی تبدیلی میں حصہ نہیں لیا‘ ترقی یافتہ دنیا کو اس بات پر قائل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے کہ موسمیاتی تبدیلیاں کسی ایک ملک مسئلہ نہیں اور دنیا کے معاشی خوشحال ممالک کو بالخصوص ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ ممالک کی مالی و تکنیکی مدد کرنی چاہئے‘ یہی تصور ’موسمیاتی انصاف‘ کہلاتا ہے جس کے لئے پاکستان عالمی ضمیر کو جھنجوڑ رہا ہے۔ گزشتہ برس COP26 کے بعد ’گلاسگو کلائمیٹ پیکٹ‘ نے واضح طور پر کوئلے سے بجلی کی پیداوار اور اِیندھن کے لئے سبسڈی سے الگ رہنے کی ضرورت کا ذکر کیا تھا تاہم دنیا کے سرمایہ دار ممالک غریب (پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک) کی خاطرخواہ مدد نہیں کرتے۔ اب تک
 کئی عالمی معاہدے اور عالمی اجلاس ہو چکے ہیں جن کے شرکا ’ماحولیاتی تبدیلیوں‘ سے متاثرہ ممالک کی مدد کا وعدہ تو کرتے ہیں لیکن اِن وعدوں کا خاطرخواہ پورا نہیں کیا جاتا۔ اب ضرورت اِس بات کی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے ترقی پذیر ممالک سے جو بھی وعدہ کئے جائیں اُنہیں لازماً پورا کیا جائے اور اِس بات پر سب کا زور ہونا چاہئے۔ دوسری ’اہم بات‘ ماحول کو لاحق ایسے تمام خطرات میں تخفیف پیدا کی ہے جن کے بارے میں عالمی سطح پر اتفاق رائے نہیں پایا جاتا اور نہ ہی خاطرخواہ مالی اعانت دی جاتی ہے۔ اِس مرحلے پر یہ نکتہ سمجھنے کی پاکستان جیسے موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ ممالک کی اعانت بطور خیرات نہیں بلکہ اس عالمی بقا و تحفظ کے لئے ضروری ہے۔ ترقی یافتہ ممالک نے ترقی پذیر ممالک کے مقابلے ماحول کو زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ ان کے ہاں کاربن کا اخراج زیادہ رہتا ہے لیکن وہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے خلاف عالمی کوششوں میں کمزور ترین ممالک میں شامل ہیں۔ اب یہ بات اُن پر منحصر ہے کہ وہ جدوجہد کرنے والے اور کمزور ممالک کی کس طرح مدد کرتے ہیں اور کی بقا و نقصانات پورا کرنے میں اُن کی کتنی مدد کرتے ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک کو موسمیاتی لامتناہی آفات کا سامنا کرتے ہوئے بقا کے ایک وجودی چیلنج کا سامنا ہے اور اِس چیلنج سے نمٹنے کے لئے پاکستان ماحول کے لئے نقصان دہ طرز عمل میں تخفیف اور عالمی موافقت کے لئے جس قدر مالی مدد کے لئے آواز اُٹھاتا رہا ہے اُسے دیکھتے ہوئے امید کی جا سکتی ہے کہ پاکستان کی فریاد پر کان دھرا جائے گا۔ یہ بات بہت اہمیت کی حامل ہے کہ ماحولیاتی تحفظ کی اِس عالمی لڑائی میں کون سا ملک کس کے ساتھ کھڑا ہے۔ درحقیقت یہ گلوبل نارتھ اور گلوبل ساؤتھ کے درمیان زیربحث (الجھا ہوا) مسئلہ (تنازعہ) ہے۔ خود کو باشعور اور ترقی یافتہ کہلوانے والی دنیا (عالمی جنوب کے ممالک) کو اپنی فہم و فراست اور ترقی کے انسان دوست ہونے کا ثبوت دینا ہوگا۔