براعظم یورپ میں گزشتہ 30 برسوں کے دوران موسمی درجہ حرارت میں باقی دنیا کے مقابلے میں دگنی شرح سے اضافہ دیکھا گیا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ یورپی ممالک نے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں نمایاں کمی کی ہے۔اقوام متحدہ کی ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق یورپ میں گرمی کا درجہ حرارت عالمی اوسط سے دو گنا بڑھ گیا ہے۔ یہ رپورٹ گزشتہ روز اقوام متحدہ کی عالمی موسمیاتی تنظیم (ڈبلیو ایم او) اور یورپی یونین کے زمینی مشاہدے سے متعلق پروگرام کاپرنکس کلائمیٹ چینج سروس نے مشترکہ طور پر جاری کی۔ ڈبلیو ایم او نے ایک بیان میں کہا، ''یورپ میں 1991-2021 کے دوران درجہ حرارت میں نمایاں طور پر اوسطا ًپانچ ڈگری سینٹی گریڈ کی شرح سے اضافہ ہوا ہے۔درجہ حرارت میں اضافے کے نتیجے میں 1997 سے 2021 کے درمیان یورپ کے مشہور الپائن گلیشیرز پر برف کی تہہ کی موٹائی میں 30 میٹر کمی آ چکی ہے۔ اس دوران گرین لینڈ میں برف کی چادر بھی پگھلتی ہوئی پائی گئی اور یہ سمندری پانی کی سطح میں تیزی سے اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ڈبلیو ایم او کے سربراہ پیٹری تالاس نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ یورپ ایک گرم ہوتی ہوئی دنیا کی زندہ تصویر پیش کرتا ہے اور ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اچھی طرح سے تیار معاشرے بھی شدید موسمی واقعات کے اثرات سے محفوظ نہیں ہیں۔ڈبلیو ایم او کے مطابق 2021 کے موسم گرما کے دوران گرین لینڈ کے بلند ترین مقام پر پہلی بار ریکارڈ بارش دیکھی گئی۔ موسم سے جڑے حادثات کے نتیجے
میں سینکڑوں ہلاکتیں ہوئیں، جنہوں نے براہ راست نصف ملین سے زائد افراد کو متاثر کیا اور 50 بلین ڈالر سے زائد کا مالی نقصان پہنچایا، ان واقعات میں سے تقریبا ً84 فیصد سیلاب یا طوفان تھے۔تاہم اقوام متحدہ کی اس رپورٹ میں تمام اطلاعات بری ہی نہیں، کیونکہ اسی رپورٹ میں بتایا گیا کہ یورپ کے متعدد ممالک نے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کامیابی کے ساتھ کمی کی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق یورپی یونین میں 1990 سے 2020 کے درمیان گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں 31 فیصد کمی واقع ہوئی۔2015 میں فرانس کے دارلحکومت پیرس میں ہونے والے بین الاقوامی موسمیاتی معاہدے کا حوالہ دیتے ہوئیڈبلیو ایم او کے سربراہ کا کہنا تھا کہ خطے میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کے لیے تخفیف کی طرف اچھی رفتارجاری رکھنا چاہئے اور اس حوالے سے عزم کو مزید مضبوط کیا جانا چاہئے۔ پیرس معاہدے کو پورا کرنے کے لئے یورپ رواں صدی کے وسط تک ایک کاربن غیر جانبدار معاشرے کے حصول میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔اس موسمیاتی رپورٹ کی تیاری میں مختلف ممالک کی قومی موسمیاتی اور ہائیڈروولوجیکل سروسز، موسمیاتی ماہرین، علاقائی اداروں کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کی شراکت دار ایجنسیوں کی کاوشیں شامل تھیں۔ یہ رپورٹ مصر کے شہر شرم الشیخ میں اقوام متحدہ کے موسمیاتی تبدیلی کے سالانہ سربراہی اجلاسCOP27 سے پہلے پیش کی گئی ہے۔ اقوام متحدہ کا ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے اجلاس کئی پہلوؤں سے اہم ہے تاہم ماضی میں جتنے بھی اجلاس ہوئے ہیں ان میں ترقیافتہ ممالک میں جووعدے کئے ان کو پورا کرنے میں وہ بعدازاں پس وپیش سے کام لیتے رہے ہیں اور امریکہ اس کی واضح مثال ہے۔