بے بس اقوام متحدہ 


انجمن اقوام متحدہ کے قیام کو اب 77برس ہوگئے ہیں اور اسی تناظر میں اس کی جنرل اسمبلی کاسالانہ اجلاس بھی منعقد ہوا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا 77 واں اجلاس کئی زاویوں سے بالکل ویسا ہی تھا جیسا کہ76واں اجلاس۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اب سے پہلے کے چند اجلاس جیسے تھے یہ اجلاس بھی ویسا ہی تھا۔ خوب لچھے دار گفتگو اس اجلاس کی خاص پہچان ہے۔ یہاں جو کچھ کہا جاتا ہے اْس پر شاذ ہی عمل ہوتا ہے اور ہاں، اس میں ایک کام اور ہوتا ہے۔ کچھ سیاسی لیڈروں کو موقع مل جاتا ہے کہ اپنے حریفوں کو ہدف بنائیں۔ حقیقت حال یہی ہے۔ اس پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہئے۔کئی سال سے دیکھنے میں آرہا ہے کہ اقوام متحدہ دْنیا کی بڑی طاقتوں کی ”چیئر لیڈر“ بن گئی ہے۔ اگر یہ نہیں تو اس کی حیثیت سماجی، سیاسی، معاشی اور صنفی عدم مساوات کے خلاف احتجاج کے پلیٹ فارم کی سی ہوگئی ہے۔ افسوس کہ تیس سال پہلے عراق جنگ کے ذریعہ جو ثابت ہوا تھا وہی یوکرین روس کی جاری جنگ کے ذریعہ ثابت ہورہا ہے۔ یہی کہ عالمی امن، مساوات اور سلامتی کے باب میں اقوام متحدہ اپنی کوئی ذمہ داری محسوس نہیں کرتی۔ ایسے میں انتونیو گوتریس جیسوں کی آواز صدا بصحرا ثابت ہوتی ہے جو پائیدار امن کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے قیام کو طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود ”اثر“ یا نتیجہ کیا ہے؟کیا اقوام متحدہ فلسطین کے مسئلہ کو حل کرسکی؟ کیا کشمیر میں استصواب رائے کاوعدہ پورا کرسکی؟کیا سوڈان، مالی، افغانستان اور دیگر ملکوں کے معاملات و مسائل میں اقوام عالم کی مدد سے کوئی فیصلہ کن نتیجے تک پہنچ سکی؟ کیا مختلف ملکوں کی شورش کو ختم کیا جاسکا؟ اور تازہ سوال یہ کہ کیا اس نے یوکرین کی جنگ ختم کرانے میں کوئی خاص دلچسپی لی؟ ماحولیاتی اور موسمی تبدیلیوں کے سلسلے میں بھی، جو کہ دورِ حاضر کے سنگین تر مسائل میں سے ایک ہے، اقوام متحدہ کی اثر پذیری دکھائی نہیں دیتی۔ یوکرین بحران سے ایسی صورتحال بنی اور ذاتی مفاد کیلئے اختیار کی گئی سفارتی پالیسی نے وہ گل کھلایا کہ وہ ممالک بھی اب پیچھے ہٹ رہے ہیں جنہوں نے صاف 
ستھری توانائی کا وعدہ کیا تھا اور اس سلسلے میں پیش رفت کررہے تھے۔ ماحولیاتی اور موسمی تبدیلی جیسے اہم اور سنگین موضوع سے لیڈروں کی عدم دلچسپی کا یہ منظر بھی دیکھنے کو ملا کہ امریکہ کے صدر جو بائیڈن اْس گول میز کانفرنس یا گفتگو سے مبینہ طور پر غیر حاضر رہے جو ماحولیاتی لائحہ عمل کیلئے منعقد کی گئی تھی۔ ایک سال پہلے اگر ایسا ہوتا (یعنی صدرِ امریکہ غیر حاضر رہتا) تو امریکی ماہرین ماحولیات برہم ہوجاتے۔ اب ایسا لگتا ہے کہ سیاسی اعتبار سے یہ موضوع اپنی کشش کھوچکا ہے۔ اپنے بہت سے داخلی تضادات کے باوجود، امن اور سلامتی پر اقوام متحدہ کی ناکامی ہے کہ ہنوز جاری ہے۔ امریکہ اور اس کے مغربی حلیفوں کیلئے یہ سٹیج اپنی سیاسی طاقت کے مظاہرے کا سٹیج بن چکا ہے جو کہ عرصہ دراز سے اسی مفاد کیلئے استعمال کیا جارہا ہے۔ امریکہ اور مغربی طاقتوں کے نزدیک یہ اْن کی جاگیر ہے جو اْنہیں دوسری جنگ عظیم میں مال غنیمت کے طور پر حاصل ہوئی تھی۔ ان بڑی طاقتوں کے برخلاف دیگر ممالک اور خطے مثلاً افریقہ، مشرق وسطیٰ اور بہت سے جنوبی ممالک کو اقوام متحدہ سے تھوڑی بہت حمایت مل جاتی ہے چنانچہ اْن کے مسائل و معاملات زیر بحث لائے جاتے ہیں مگر ایسی آواز میں کہ کچھ سنائی نہیں دیتا۔ اس آواز کی لہروں پر سوار ہوکر کوئی بات اراکین تک پہنچتی بھی ہے تو اس کا اثر عارضی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنوبی ممالک مل جل کر بھی اتنے باا ثر نہیں ہوتے کہ اجلاس کے نتائج پر اثرانداز ہوسکیں یا نئی سرمایہ داری کو چیلنج کرسکیں یا معاشی استحصال کیخلاف کسی کاروائی کو یقینی بناسکیں یا نسل پرستی ختم کرواسکیں یا فوجی مداخلت اور سیاسی شعبدہ بازی کو موضوع بنا 
کر اس کو لگام دینے کی کامیاب کوشش کرسکیں‘بیس ستمبر کو ایک کھلے خط میں جو کہ عالمی لیڈروں کے نام لکھا گیا تھا،200 سے زائد انسانی حقوق کی تنظیموں نے مطالبہ کیا کہ غذائی قلت کا بحران ختم کیا جائے جس سے ہر چار سیکنڈ پر دْنیا میں کسی ایک انسان کی موت ہوسکتی ہے۔ اس خط کے دستخط کنندگان میں آکسفم اور سیو دی چلڈرن جیسی تنظیمیں شامل تھیں۔ یہ بحران افریقی ملکوں کیلئے زیادہ پریشان کن ہے حالانکہ یہ وہ خطہ ہے جہاں غذائی قلت کوئی نئی بات نہیں ہے۔ مگر، اب یہ خطہ غذائی بحران کے جن اندیشوں سے گھرا ہوا ہے اْس کے پیش نظر یہ ضروری تھا کہ اس کا جو سبب ہے یعنی ماحولیاتی تبدیلی، وہ موضوع بحث بنتا مگر ایسا نہیں ہوا اسی ماحولیاتی آلودگی نے پاکستان کو تاریخ کے بدترین سیلاب سے دوچار کیا ہزاروں افراد جانوں سے گئے کروڑوں بے گھر ہوگئے،لاکھوں ایکڑ پرفصلیں اور باغات تباہ ہوگئے اور خود اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے تسلیم کیاکہ پاکستان عالمی طاقتوں کی پھیلائی ہوئی آلودگی کی سزا بھگت رہاہے مگر اس موضوع پر بات کی زحمت ہی گوارہ نہ کی گئی۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اقوام متحدہ فاقہ کشی کے دہانے پر پہنچنے والے بچوں کو غذا دلانے میں کوئی خاص کردار ادا کرسکتا ہے نہ ہی کوئی دوسرا عالمی مسئلہ جو شدید اور فوری نوعیت کا ہو، حل کرسکتا ہے۔ تو کیا وہ وقت نہیں آگیا ہے کہ اس کا ڈھانچہ بدلا جائے اور اس سوال پر بحث کی جائے کہ اس کا مشن کیا ہے اور کیا ہونا چاہئے؟ اس سے انکار نہیں کہ اِدھر کافی عرصہ سے اس میں اصلاحات کا مطالبہ کیاجارہا ہے اور یہ درست مطالبہ ہے تاکہ یہ ادارہ نئے جمہوری انداز سے لیس ہو، معاشی حقائق کو سمجھے اور عدم مساوات کے خاتمے کی پْراثر کوشش کرے‘ اس ادارے میں خاص خاص ملکوں کی جو بالادستی ہے، وہ کئی رکاوٹیں پیدا کرتی ہے چنانچہ اس میں توازن پیدا کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے عملی طورپر اقوام متحدہ پانچ ویٹوپاورز کے ہاتھوں یرغمال تنظیم بن چکی ہے اور یہ پانچ ہی آج اس پوری تنظیم کو اپنی مرضی سے چلا رہے ہیں تو کیا اب بھی کوئی امیدباقی رکھی جاسکتی ہے۔