قومی زبان کا عملی نفاذ

1973کے متفقہ آئین میں اُردو کو پاکستان کی سرکاری زبان قرار دیا گیا ہے۔بلاشبہ یہ اُردو پاکستان میں بسنے والے بائیس کروڑ لوگوں کے باہمی رابطے کی واحد زبان ہے۔سپریم کورٹ آف پاکستان نے8ستمبر 2015کواپنے فیصلے میں اُردو کو فوری طور پر نافذ کرنے کا فیصلہ سنایاتھا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے نفاذ اُردو کے حوالے سے یہ تاریخی فیصلہ سنایا تھا۔ سات سال گذرنے کے باوجود سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ اس دوران تین حکومتیں تبدیل ہوگئیں کسی بھی حکومت کو قومی زبان کے نفاذ کی توفیق نہیں ہوئی۔یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ قومی قرار دی جانے والی ہر چیز کے ساتھ ہمارے ہاتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیاجاتا ہے۔یہی حال قومی زبان کا بھی ہے۔ارکان پارلیمنٹ، افسر شاہی، قانون دان،اساتذہ، طلبا اور معاشرے کے نمائندہ لوگ بھی انگریزی میں بات کرنے کو اپنے لئے باعث افتخار سمجھتے ہیں۔سینٹ، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی کاروائی، عدالتی فیصلے، سرکاری اعلامیے انگریزی 
میں ہی جاری کئے جاتے ہیں۔  حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں کی ذمہ داری تھی کہ وہ اردو کو قومی زبان کے طور پر رائج کریں وہی لوگ اس کے نفاذ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ہمارے ہاں ایس ایم ایس اور واٹس ایپ پر پیغامات بھی انگریزی یا رومن اردو میں بھیجے جاتے ہیں شادی بیاہ کے کارڈ بھی انگریزی میں چھاپے جاتے ہیں‘بلاشبہ انگریزی بین الاقوامی رابطے کی زبان ہے‘ اسے سائنس و ٹیکنالوجی کی زبان بھی کہا جاتا ہے‘علم حاصل کرنے کے لئے اس زبان میں مہارت حاصل کرنا ضروری ہے۔لیکن اپنی زبان اور اپنی شناخت کی قیمت پر غیر ملکی زبان سیکھنا خود اپنے ہاتھوں اپنا تشخص کھونے کے مترادف ہے۔ہم نے انگریزی زبان ہی نہیں ان کے کلچر اور رسومات کو بھی اپنا لیا ہے اور اسے ترقی یافتہ ہونے کا ثبوت بھی سمجھتے ہیں۔اب تو ہماری عام بول چال میں بھی انگریزی کے الفاظ در آئے ہیں ہمارے بچے اردو میں گنتی کو نہیں سمجھ پاتے۔بچہ جب توتلی زبان میں بولنے لگتا ہے تو ماں باپ اور بہن بھائی اسے انگریزی کے الفاظ یاد کراتے ہیں۔ لسانیات پر حالیہ تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں سات ہزار سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں‘انگریزی اور دیگر بڑی زبانیں حاوی ہونے کی وجہ سے بہت سی چھوٹی زبانیں اور ان سے منسلک اقدار اور رسومات  بھی معدوم ہونے لگی ہیں۔ چینی زبان سب سے زیادہ لوگ بولتے ہیں جو دنیا کی سب سے بڑی زبان ہے‘ دوسرے نمبرپرانگریزی زبان ہے‘ پوری دنیا میں 60کروڑ سے زیادہ لوگ اردو زبان بولتے اور سمجھتے ہیں اس لحاظ سے اردو دنیا کی تیسری بڑی 
زبان ہے۔ اور ہمیں اسے اپنانے میں شرم محسوس ہوتی ہے۔ عربی، فارسی اور انگریزی کی طرح اردو بھی صرف جذبات کے اظہار، گفتگو، شاعری اور رابطے کا ہی ذریعہ نہیں، بلکہ یہ ایک تہذیب، ثقافت،تمدن، روایات، اقدار اور تاریخ کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔اور اسلاف کا ورثہ ہے جس کا تحفظ ہم میں سے ہر شہری کی قومی ذمہ داری ہے۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی یا کسی دوسرے بین الاقوامی فورم پر چین، روس، جاپان،فرانس، جرمنی اور دیگر ممالک کے سربراہان اپنی قومی زبان میں خطاب کرتے ہیں۔ سننے والوں کے لئے اس کا ترجمہ کیاجاتا ہے۔ اس سے ان ممالک کے سربراہوں کی عزت و تکریم کم نہیں ہوتی بلکہ مزید بڑھ جاتی ہے۔ قومی زبان کے ساتھ ہماری تاریخ ہی نہیں بلکہ ہمارا تشخص بھی جڑا ہوا ہے۔قومی ایوانوں کے منتخب ارکان،قومی میڈیا، دانشوروں، ماہرین تعلیم، علمائے کرام اور ادباء  و شعرا کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ قومی زبان کے نفاذ اور اسے اس کا صحیح مقام دلانے میں اپنا کردار ادا کریں۔