افغانستان کی تعمیرنو کیلئے دی جانے والی امریکی مالی امداد کے درست استعمال (استفادے) اور افغان معیشت پر نظر رکھنے والے امریکی حکومت کے خصوصی نگران ادارے ’سپیشل انسپکٹر جنرل فار افغانستان ری کنسٹرکشن (sigar)‘ نے امریکی کانگریس کیلئے 177 صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ مرتب کی ہے جو مذکورہ ادارے کی ویب سائٹ سے مفت حاصل (ڈاؤن لوڈ) کی جا سکتی ہے۔ اِس 57ویں سہ ماہی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کو امداد دینے والے ممالک میں امریکہ سرفہرست ہے جس نے جولائی 2021ء سے جون 2022ء تک 1.1 ارب ڈالر کی امداد کی دی ہے‘چار ابواب میں تقسیم مذکورہ رپورٹ میں پاک افغان تجارت کو بھی موضوع بناتے ہوئے جو اعدادوشمار دیئے گئے ہیں وہ خاصے دلچسپ ہیں کہ پاک افغان تجارت میں افغانستان کا پلڑہ بھاری ہے!امریکہ کے معروف امریکی نگران ادارے کی تازہ ترین رپورٹ میں جولائی دوہزاراکیس سے جون 2022ء کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ افغانستان کی پاکستان کیساتھ تجارت میں 79ملین (7 کروڑ 90 لاکھ) ڈالر کا تجارتی سرپلس رجسٹر کیا گیا ہے یعنی افغانستان کو قریب 8 کروڑ ڈالر زائد تجارتی فائدہ ہوا ہے‘ مذکورہ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ افغانستان کی کرنسی (افغانی) کی قدر پاکستانی روپے کے مقابلے 11.6 فیصد بڑھی ہے اور اقتصادی و سیاسی مشکلات کے باوجود‘ افغان کرنسی مذکورہ سہ ماہی میں نسبتاً مستحکم رہی‘ جس کی قدر میں ’یورو‘ کے مقابلے میں 6.1فیصد اور بھارتی روپے کے مقابلے میں 0.2 فیصد اضافہ ہوا تاہم افغانستان کے مرکزی بینک ”دا افغانستان بینک“ کے جاری کردہ اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ جون کے آخر اور وسط ستمبر کے درمیان‘ افغان کرنسی (افغانی) کی قدر میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں 0.6فیصد اور چینی یوآن کے مقابلے میں 1.9فیصد کمی ہوئی ہے‘ ورلڈ بینک کی طرف سے جاری کردہ تازہ ترین تجارتی اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے مذکورہ ’سیگار رپورٹ‘ میں کہا گیا کہ ”رواں سال افغانستان کی پاکستان سے اہم درآمدات کھانے پینے کی اشیا رہی ہیں جبکہ دیگر درآمدات میں ادویات (فارماسیوٹیکل مصنوعات) اور لکڑی شامل ہے لیکن بین الاقوامی منڈی میں تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے دو طرفہ تجارت کو افغانستان کے حق میں جھکا دیا کیونکہ
پاکستان ایندھن کے متبادل ذرائع کی تلاش میں تھا اور اُس نے افغانستان سے کوئلہ درآمد کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہاں ایک خاص نکتے کا امریکہ اور ورلڈ بینک کی رپورٹوں نے احاطہ نہیں کیا اور وہ یہ ہے کہ جب پاکستان نے افغانستان سے کوئلہ درآمد کرنے کا فیصلہ کیا تو افغان کوئلے کی قیمت کم رکھی گئی لیکن جیسے ہی خریداری شروع ہوئی‘ افغان حکومت نے کوئلے کی قیمت بڑھا دی اور اِس سے پاکستان کو سستا کوئلہ مہنگے داموں خریدنا پڑا‘ ذہن نشین رہے کہ پاکستان افغانستان سے روزانہ تقریباً دس ہزار ٹن کوئلہ خرید رہا ہے اور یہ برآمدی کوئلہ کوئی ایسی جنس نہیں جس کے ذخائر پاکستان کے پاس موجود نہیں ہیں! جیولوجیکل سروے آف پاکستان کے مطابق ”تھر میں کوئلے کے ذخائر کا تخمینہ تقریباً 175 ارب ٹن ہے جو دنیا میں ’جلانے کیلئے بہترین کوئلے کے سب بڑے ذخائر ہیں‘ 31جنوری 2022ء کے روز یہ خبر بڑی دھوم دھام سے دی گئی تھی کہ صوبہ سندھ کے علاقے ’تھر‘ میں کوئلے کے تین ارب ٹن ذخائر دریافت ہوئے ہیں اور سندھ حکومت نے اِس کھوج کو اپنی کامیابیوں میں فہرست بھی کر لیا تھا۔ قوم کو بتایا گیا کہ تھر کے ایک حصے میں معمول کی کھوج کے دوران کوئلے کے مزید ذخائر دریافت ہوئے ہیں‘ وزیراعلیٰ سندھ سیّد مراد علی شاہ نے اِس ’خوشخبری‘ پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے بیان میں کہا کہ ”تھر پاکستان کی قسمت بدل دے گا اور یہ نعرہ اب حقیقت بن رہا ہے“ تھر میں کوئلے کے ذخائر پاکستان کی قسمت بدل دیں گے یا نہیں لیکن افغانستان جو کہ دنیا میں کوئلے کا ذخیرہ رکھنے والا 62 واں ملک ہے اور زیرزمین ذخائر سے کوئلے کو حاصل کرنے اُور اِس کی فروخت کے لحاظ سے افغانستان دنیا کا 45واں ملک ہے لیکن وہ دنیا میں سب
سے زیادہ کوئلے کے ذخائر رکھنے والے ملک (پاکستان) کو کوئلہ فروخت کر رہا ہے! پاکستان کے قدرتی وسائل کی خاطرخواہ ترقی نہ ہونے کی وجہ سے وہ اجناس اور اشیا بھی درآمد کرنا پڑ رہی ہیں جو پاکستان میں زیادہ بڑی مقدار اور معیار کے لحاظ سے زیادہ بہتر حالت میں موجود ہیں‘جون اور جولائی دوہزاربائیس کے درمیان‘ افغانستان نے پاکستان کو کوئلے کی برآمدات میں اضافے کیلئے اپنے کان کنی کے شعبے پر خصوصی توجہ دی اور اگرچہ اُن کے پاس آلات‘ علم اور سائنسی بنیادوں پر محفوظ کان کنی کی مہارت نہیں ہے لیکن اُنہوں نے زیادہ افرادی قوت سے کوئلے کی برآمدات اور اِس کی قیمت میں تین گنا اضافہ کیا۔ پاک افغان کوئلے کی درآمد سے متعلق معاہدے کے مطابق خیبرپختونخوا میں خرلاچی کے دو کسٹم اسٹیشن اور شمالی وزیرستان میں غلام خان بارڈر کراسنگ کے ذریعے کوئلے کی درآمد شروع کی گئی‘پاکستان مختلف ذرائع سے سالانہ تقریباً بیس ملین ٹن کوئلہ درآمد کر رہا ہے جو بجلی گھروں میں استعمال کیلئے ہے‘حکومت نے بین الاقوامی کوئلے کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کے تناظر میں بجلی کی پیداوار کیلئے درکار تھرمل کوئلے کیلئے جنوبی افریقہ کی بجائے افغانستان سے کوئلہ خریدنے کا فیصلہ کیا تھا جبکہ ضرورت تھر میں موجود ذخائر کو ترقی دینے کی ہے‘امریکی مانیٹرنگ ایجنسی کے مطابق طالبان کی سفارتی تنہائی کا سفر جاری ہے اور تاحال کسی بھی ملک نے سرکاری طور پر افغانستان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا تاہم چین‘ پاکستان‘ روس اور ترکمانستان سمیت متعدد ممالک نے طالبان کے مقرر کردہ سفارتکاروں کو اپنے ہاں افغان سفارت خانوں میں رہائش کی اجازت دی ہے‘ سیگار نامی رپورٹ کے مطابق ”امریکہ نے ابھی تک افغان طالبان کی حکومت کو سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا لیکن امریکی حکام نے طالبان کے نمائندوں کیساتھ مختلف امور اور مسائل پر بات چیت جاری رکھی ہوئی ہے اور امریکہ امن و امان قائم رکھنے کیلئے طالبان کی کاروائیوں کا قریب سے مشاہدہ کر رہا ہے۔“ امریکہ کی ’براؤن یونیورسٹی‘ کے شعبے ’واٹسن انسٹی ٹیوٹ‘ میں جنگی منصوبوں کی لاگت کے حوالے سے اعداد و شمار جمع کئے گئے ہیں جن کے مطابق ”افغانستان میں بیس سالہ جنگ پر ہوئے امریکی اخراجات وزارت ِدفاع (پینٹاگون) کے جاری کردہ تخمینہ جات کے دوگنا سے بھی زیادہ رہے۔