ماحولیاتی تبدیلی، نقصان کا ازالہ کون کریگا؟

ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے متاثر ہونے والے ممالک اب تک امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین  سے ہی ماحولیاتی نقصان کے ازالے کے لیے زرتلافی ادا کرنے پر زور دیا کرتے تھے۔  چین گوکہ ماضی میں خود بھی خسارہ اور نقصان فنڈ کے قیام کی حمایت کرچکا ہے تاہم اس نے اب تک یہ نہیں بتایا کہ آیا وہ اس میں اپنی طرف سے ادا ئیگی کرنا چاہتا ہے یا نہیں۔یورپی یونین اور امریکہ کا کہنا ہے کہ چونکہ چین سب سے زیادہ گرین ہاؤس گیس خارج کرتا ہے اس لیے اسے بہر حال ادائیگی کرنی چاہئے۔ماحولیاتی تبدیلیاں پہلے سے کہیں زیادہ شدید ہو رہی ہیں اور نقصان بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ متاثرہ ممالک ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ ترقی کرنے والے جرمنی جیسے امیر ممالک سے معاوضے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔کینیا کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے، جو ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں اور جہاں گرمی کی شدت میں مسلسل اضافہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں نے صرف کینیا کو ہی مصیبت میں مبتلا نہیں کیا بلکہ خشک سالی براعظم افریقہ کے لاکھوں لوگوں کو فاقہ کشی کے دہانے پر لا چکی ہے۔ گزشتہ
 مون سون میں آنے والے  سیلاب کے نتیجے میں کم از کم 15 سو افراد  جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور  ملک کو کئی بلین ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ اس نقصان کے آزالے کے لیے عالمی سطح پر اٹھنے والی آوازوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ امیر ممالک کو لاس اینڈ ڈیمیج فنڈ کے لئے ادائیگیاں کرنا چاہئیں، جہاں سے ان ممالک کو رقوم فراہم کی جائیں، جن کو نقصان اٹھانا پڑا ہے۔گزشتہ سال سکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں اقوام متحدہ کے زیر انتظام ماحولیاتی کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ اس اجلاس میں بھی متاثرہ ممالک کے نقصان کے ازالے کے لیے ایک طریقہ کار وضع کرنے کے حوالے سے بات چیت کی گئی لیکن متعدد بڑے ممالک نے اس کی مخالفت کر دی۔ تاہم گلاسگو کانفرنس میں اس
 حوالے سے مزید بات چیت کرنے کے دروازے کھلے رکھے گئے۔آرگنائزیشن فار اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈویلپمنٹ کے مطابق 2020 میں ان امیر ممالک نے صرف 83 بلین ڈالر امداد کے وعدے کیے، جو طے شدہ معاہدے سے بھی کم ہے۔اگرچہ متعدد ترقی یافتہ ممالک لاس اینڈ ڈیمیج کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہیں لیکن بہت سے ممالک کا یہ کہنا ہے کہ متاثرہ ممالک کی مدد موجودہ کلائمیٹ فنڈ کے ذریعے کی جائے۔عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں یورپی یونین اور امریکہ کا کہنا تھا کہ دنیا میں سب سے زیادہ کاربن کا اخراج کرنے والے چین کو اس کے لیے قیمت ادا کرنی چاہئے۔جزائر انٹی گوا اور باربوڈا کے وزیر اعظم نے مصر کے شرم الشیخ میں اقوام متحدہ کی ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق عالمی کانفرنس  COP27 کے دوران کہا کہ انتہائی آلودگی پیدا کرنے والی اُبھرتی ہوئی معیشتوں بشمول چین اور بھارت کو ماحولیاتی زرتلافی فنڈ میں ادائیگی کرنی چاہئے، تاکہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے ہونے والی تباہیوں  کے بعد تعمیر نو میں ملکوں 
 کی مدد مل سکے۔یہ پہلا موقع ہے جب ایشیا ء کی ان دو اُبھرتی ہوئی معیشتوں کو کاربن کے سب سے زیادہ اخراج کرنے والے ملکوں کی فہرست میں شامل کیا جا رہا ہے اور جزائر پر مشتمل ممالک گلوبل وارمنگ کی وجہ سے پہلے سے ہی نقصان زدہ ماحولیات کے لیے انہیں بھی ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔چھوٹے جزائر پر مشتمل ریاستوں کی ایسوسی ایشن (اے او ایس آئی ایس)کی نمائندگی کرتے ہوئے وزیر اعظم گیسٹون براونی نے  میڈیاسے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ گوکہ یہ ابھی ابھرتی ہوئی معیشتیں ہیں، لیکن دنیا کے پہلے اور سب سے زیادہ گرین ہاوس گیس خارج کرنے والوں کو اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے فنڈ میں ادائیگی کرنی چاہئے۔وزیر اعظم براؤنی کا کہنا تھا کہ ہم سب کو معلوم ہے کہ عوامی جمہوریہ چین اور بھارت، بہت زیادہ ماحولیاتی آلودگی پھیلانے والے ممالک ہیں اور آلودگی پھیلانے والوں کو اس کی قیمت بھی ادا کرنی چاہئے۔اور اس سلسلے میں عالمی رائے عامہ ہموار ہونے کی صورت میں اب ترقیافتہ ممالک پر دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے جس سے یہ امکان بڑھ گیا ہے کہ وہ نقصان کا ازالہ کرنے کے لئے تیار ہوں۔