سترہ اکتوبر دوہزار بائیس: وفاقی حکومت نے ملک میں نئی مردم شماری اور عام انتخابات کے انعقاد کے فیصلے پر نظرثانی کرتے ہوئے اِن دو مقاصد (مردم شماری اور عام انتخابات) کے لئے مختص 5 ارب روپے روک دیئے جبکہ اراکین اسمبلیوں کو ترقیاتی منصوبوں کے لئے 18 ارب روپے کی منظوری دی گئی۔ کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے پسماندہ علاقوں کی ترقی کے لئے بجٹ سے پندرہ ارب روپے اور انوویشن سپورٹ پروجیکٹ سے مزید تین ارب روپے قومی اسمبلی کے اراکین کو صوابدیدی اخراجات کے طور پر دینے کا فیصلہ کیا۔ اِس منظوری کے بعد ارکان پارلیمنٹ کے صوابدیدی اخراجات کا مجموعی بجٹ 87 ارب روپے کر دیا گیا۔ حکمران اتحاد سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کے 174 انتخابی حلقوں میں سے ہر ایک حلقے میں اوسطاً 50 کروڑ (پانچ سو) ملین روپے خرچ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ ساتویں مردم و خانہ شماری کے انعقاد کے لئے تکنیکی ضمنی گرانٹ کی سمری مؤخر کر دی گئی۔ اِس فیصلے پر وزیرخزانہ کی وطن واپسی کے بعد نظرثانی کا امکان تھا تاہم ایسا نہیں ہوسکا۔
بدقسمتی ہے کہ حکومت نے ایک مرتبہ پھر مردم و خانہ شماری کا عمل روک دیا ہے جسے اگلے عام انتخابات سے قبل مکمل کرنے کی ضرورت ہے جبکہ ساتویں قومی ہاؤسنگ اور آبادی کی مردم شماری کے انعقاد میں چھ ماہ کی تاخیر کسی بھی صورت مناسب فیصلہ نہیں ہے اگرچہ حکومت نے نئے شیڈول کے لئے مشترکہ مفادات کی کونسل (سی سی آئی) سے منظوری لینے کا فیصلہ کیا ہے لیکن اب یہ محض رسمی بات معلوم ہوتی ہے۔ اگر حکومت اس تاخیر کو برقرار رکھتی ہے تو مئی 2023ء سے پہلے مردم شماری کے حتمی نتائج الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کو دستیاب نہیں ہوں گے اور اِس سے ملک میں عام انتخابات کا انعقاد تاخیر کا شکار ہو سکتا ہے۔ اصل شیڈول کے مطابق الیکشن کمیشن کو توقع تھی کہ اگلی مردم شماری کے نتائج دسمبر 2022ء کے دوران کسی وقت موصول ہو جائیں گی جس کی بنیاد پر سال 2023ء کی پہلی ششماہی میں حلقہ بندیوں کا عمل مکمل کر لیا جائے گا لیکن اگر سال 2023ء تک مردم و خانہ شماری نہیں ہوتی تو اِس سے انتخابی حلقہ بندیوں کا کام مکمل ہوتے اور عام انتخابات کی تاریخ 2024ء تک بڑھانا پڑے گی۔وفاقی ادارہئ شماریات (پاکستان بیورو آف شماریات) کی جانب سے ساتویں مردم شماری کے
لئے نئی ٹائم لائن کے ساتھ ’سی سی آئی‘ اور ’وزیراعظم آفس‘ کو نئی سمری (تجویز) بھیجنے کا امکان ہے‘ جس کی منظوری ملنے کے بعد صورتحال واضح ہو گی کہ پاکستان میں آئندہ عام انتخابات کا انعقاد کب تک ممکن ہوگا کیونکہ الیکشن کمیشن کو کم سے کم چھ ماہ صرف حلقہ بندیوں پر نظرثانی کے لئے درکار ہیں جو تازہ مردم و خانہ شماری کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ اگلی مردم شماری چونکہ ’ڈیجیٹل‘ ہوگی اس لئے اعدادوشمار مرتب کرنے اور اِس کی گنتی جیسی مشقوں میں ناتجربہ کاری کی وجہ سے غیر متوقع رکاوٹیں حائل ہوسکتی ہیں۔ اس سے قبل کی نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے ساتھ الیکشن کمیشن نے ایک معاہدہ کیا تھا جو نئی انتخابی حلقہ بندیوں اور اِن کی فہرستیں مرتب کرنے سے متعلق تھا۔ اس معاہدے میں کہا گیا تھا کہ مردم شماری رواں برس پندرہ اکتوبر سے شروع کی جائے گی اور نومبر دوہزاربائیس کے وسط تک مکمل کر لی جائے گی۔ بنیادی طور پر یہ معاشی صورتحال ہے جو بظاہر لیٹر آف کریڈٹ کے کھلنے میں تاخیر کی ذمہ دار ہے۔ اس کے بعد نادرا ڈیجیٹل مشق کے لئے درکار ٹیبلٹس کی مطلوبہ تعداد فراہم کرنے سے بھی قاصر رہا۔ اگر مردم شماری کو ڈیجیٹل طرز پر آگے بڑھانا ہے تو مردم شماری کے لئے ایک لاکھ چھبیس ہزار سے زائد آلات (ٹیبلٹس) درکار ہوں گے۔ مردم شماری کے لئے مکمل اور جدید ترین سافٹ وئر کی بھی الگ سے ضرورت ہے‘ جسے بنانے کے لئے ایک مرتبہ بھاری اخراجات برداشت کرنا پڑیں گے۔
ایک ایسی صورتحال میں جبکہ ملک کے درجنوں اضلاع سیلاب سے متاثر ہیں اور سیلاب سے غیرمتاثرہ اضلاع کی معیشت و معاشرت بھی مشکل معاشی حالات سے گزر رہی ہے‘ مردم و خانہ شماری بظاہر ممکن و مناسب نہیں لگ رہا اور نہ ہی ایسی صورت میں عام انتخابات کا انعقاد ہوتا دکھائی
دے رہا ہے لیکن بہت سے قومی مسائل کا حل ’عام انتخابات‘ ہیں جس کے لئے مردم و خانہ شماری درکار ہے۔ مردم شماری کو ڈیجیٹل آلات کی مدد سے کرنے کی بجائے اگر اِس مرتبہ بھی روایتی طریقے ہی سے کر لیا جائے اور بالخصوص سال 2017ء کی مردم شماری والی غلطیوں کو نہ دہرایا جائے تو نتائج یکساں بہتر برآمد ہو سکتے ہیں۔ ناکامیوں کے اسباق مدنظر رکھے جائیں تو کم خرچ میں مردم و خانہ شماری کا بنیادی مقصد حاصل ہو سکتا ہے۔ ڈیجیٹل مردم و خانہ شماری کے لئے عملے کی تربیت کی بھی ضرورت ہوگی اور آلات سے کام لینے کے لئے ٹرینرز اور ماسٹر ٹرینرز بنانے کے لئے الگ سے وقت درکار ہوگا اِس مقصد کے لئے چونکہ ایک لاکھ سے زیادہ افرادی قوت درکار ہوگی جن کی خدمات حاصل کرنے کے بعد ہی تربیتی عمل شروع کیا جا سکے گا۔ اگر عام انتخابات اسمبلیوں کی آئینی مدت پوری ہونے یعنی سال 2023ء کے اگست سے اکتوبر کے درمیان منعقد نہیں ہوتے تو ملک میں سیاسی عدم استحکام جاری رہے گا اور ظاہر ہے کہ اِس طویل معاشی عدم استحکام کا ملک متحمل نہیں ہو سکتا۔ اُمید ہے کہ مردم و خانہ شماری سے متعلق کسی حتمی فیصلے تک پہنچنے سے پہلے تمام پہلوؤں بشمول معاشی‘ تکنیکی اور سیاسی پہلوؤں پر غور کیا جائے گا جو یکساں اہم ہیں۔ مردم شماری کی اہمیت سیاسی ضرورت سے بالاتر ہے‘ جب کسی ملک میں مردم و خانہ شماری سے متعلق تازہ ترین اعدادوشمار ہی دستیاب نہیں ہوں گے تو وہاں مستقبل کی منصوبہ بندی کس طرح کی جا سکے گی؟ یہی مردم و خانہ شماری اگلی دہائی کے دوران عوامی پالیسی کے لئے سمت کا تعین بھی کرے گی اور یہی ”ترقی کا بلیو پرنٹ“ بھی ثابت ہوگا جس کے لئے ضروری ہے کہ صرف مردم و خانہ شماری ہی نہیں بلکہ عوام کے رہن سہن سے متعلق زیادہ سے زیادہ تفصیلات جمع کی جائیں۔ مردم شماری میں آبادی کا شمار کرتے ہوئے جو کمی بیشی رہ جاتی ہے اُسے ایک بنیاد کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اِس عمل کو جامع بنانے کی کوشش کی جاتی ہے کیونکہ اِسی مردم شماری پر فلاحی منصوبوں اور امدادی ادائیگیوں سے لے کر صحت و تعلیم کی سہولیات کی فراہمی منحصر ہے لہٰذا مردم و خانہ شماری کا عمل جامع انداز میں سرانجام دینے پر بھی توجہات مرکوز کی جائیں‘ تاکہ اِس سے قومی اختلاف رائے کی بجائے قومی اتفاق رائے جیسے ثمرات حاصل ہوں۔